بصری نوجوان کا کہنا ہے کہ میں نے سیدنا عامرؒ سے کہا: خدا کی قسم! اگر آپ نے مجھے وہ تین چیزیںنہیں بتائیں، جو آپ نے اپنے رب سے مانگی ہیں، تو میں آپ کی اس حالت کے بارے میں تمام لوگوں کو بتادوں گا، جو میں نے دیکھی ہے۔ تو کہنے لگے خدا کے لیے ایسا مت کریں۔ تو میں نے کہا پھر میری شرط وہی ہے جو میں نے آپ کو بتادی ہے۔
جب انہوں نے میرا اصرار دیکھا تو کہنے لگے:
اچھا میں آپ کو بتاتا ہوں، لیکن شرط یہ ہے کہ آپ خدا کو گواہ بناکر میرے ساتھ وعدہ کریں کہ آپ کسی اور کو نہیں بتائیں گے۔ میں نے کہا خدا کی ذات کی قسم! آپ کے ساتھ پکا وعدہ ہے کہ جب تک آپ زندہ رہیں گے میں آپ کا راز فاش نہیں کروں گا۔
تو کہنے لگے: ’’مجھے اپنے دین کے بارے میں سب سے زیادہ خوف عورتوں کی طرف سے تھا‘‘ (یعنی مجھے دین کے لیے سب سے بڑا خطرہ عورت لگ رہی تھی، کیوں کہ عورتوں کی آزمائش سے آدمی بے دین اور گنہگار ہوجاتا ہے)
تو میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ عورتوں کی محبت میرے دل سے نکال دے! میرے رب نے میری یہ دعا قبول فرمالی، اب میری یہ حالت ہے کہ جب میں (نامحرم) عورت کو (غلطی سے بھی) دیکھ لوں تو مجھ یہ پروا نہیں ہوتی کہ یہ عورت ہے یا دیوار ہے (یعنی عورت کو دیکھنے سے مجھ پر کوئی اثر نہیں پڑتا)۔
میں نے کہا: ایک چیز تو یہ ہوگئی، اب دوسری بتائیں۔
کہنے لگے: دوسری یہ کہ میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ ’’مجھے ایسا بنادے کہ میں تیرے علاوہ کسی سے نہ ڈروں۔‘‘
میرے رب نے میری یہ دعا بھی قبول فرمائی۔ خدا کی قسم! اس کائنات میں رب تعالیٰ کے سوا میں کسی چیز سے نہیں ڈرتا۔
میں نے کہا تیسری چیز کیا تھی؟
کہنے لگے: ’’میں نے اپنے رب سے درخواست کی تھی کہ مجھ سے نیند ختم کردے تاکہ میں رات دن جیسے چاہوں اپنے رب کی عبادت کروں، میرے رب نے یہ تیسری چیز مجھے عطا نہیں فرمائی، (یعنی میری یہ تیسری دعا اور درخواست قبول نہیں ہوئی)
جب میں نے ان کی یہ باتیں سنیں تو میں نے ان سے کہا:
(خدا کے لیے) اپنے اوپر ترس کھائیں (نرمی کریں) ، کیوں کہ آپ ساری رات نماز میں کھڑے ہوکر اور سارا دن روزے کی حالت میں گزارتے ہیں ، حالاں کہ جنت تو آپ کے اس عمل سے بھی کم عمل کے ساتھ مل سکتی ہے اور آگ سے بچاؤ آپ کی اس جدوجہد (کوشش) سے بھی کم کو شش کے ساتھ ممکن ہے۔
یہ سن کر کہنے لگے:
ترجمہ: ’’مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں ایسی جگہ مجھے
شرمندگی نہ اٹھانی پڑے، جہاں شرمندگی کوئی فائدہ نہ دے۔‘‘
خدا کی قسم! میں عبادت میں اس وقت تک کوشش کرتا رہوں گا، جب تک میرے اندر کوشش اور جدوجہد کی طاقت باقی رہے گی۔
پھر اگر مجھے نجات مل جائے تو وہ خدا کی مہربانی ہوگی اور اگر جہنم میں داخل ہوجاؤں تو وہ میری ہی کوتاہی اور گناہ کی وجہ سے ہوگا۔
غزوہ میں جانے سے پہلے تین باتوں کا معاہدہ:
حضرت عامرؒ صرف رات کے راہب (یعنی رات کے وقت خوف خداوندی کی وجہ سے اپنے آپ کو عبادت میں مشغول رکھنے والے) ہی نہیں تھے، بلکہ دن کے شہسوار (مجاہد) بھی تھے ، جب بھی جہاد کے لیے اعلان ہوتا تو سب سے پہلے لبیک کہنے والے یہی حضرت عامرؒ ہی ہوتے تھے۔
ان کی عادت مبارکہ تھی کہ جب بھی کسی غزوے میں مجاہدین کے ساتھ جاتے تو کھڑے ہوکر اپنے تعارف کراتے ، تاکہ یہ کسی جماعت کے ہمراہ ہوکر جائیں (یعنی لوگ ان کی رفاقت اختیار کرلیں) تو جب یہ کسی جماعت کی رفاقت (دوستی) میں آجاتے تو سب سے پہلے ان کے ساتھ تین باتوں کا معاہدہ کرتے تھے۔
اگر آپ لوگ میری ان تین شرائط کو مان لیں گے تو میں آپ کے ساتھ چلوں گا، ورنہ نہیں، لوگ پوچھتے کہ آپ کی وہ تین شرائط کیا کیا ہیں؟
تو یہ کہتے: ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ لوگوں کی خدمت میں کروں گا اور خدمت کے معاملے میں مجھ سے کوئی نہیں الجھے گا (یعنی خدمت کے لیے مجھے کوئی یہ نہیں کہے گا کہ آپ چھوڑیں میں کرتا ہوں) بلکہ میں ہی خدمت کرتا رہوں گا۔‘‘
’’دوسری بات یہ ہے کہ آپ لوگوں کا مؤذن میں ہی ہوں گا نماز کے لیے اذان دینے میں آپ میں سے کوئی مجھ سے نہیں الجھے گا۔‘‘
’’تیسری بات یہ کہ میں اپنی طاقت اور وسعت (گنجائش) کے مطابق آپ لوگوں پر خرچ کروں گا۔‘‘
پھر اگر وہ لوگ ان کی باتیں تسلیم کرلیتے اور کہہ دیتے کہ ’’ٹھیک ہے‘‘ تو یہ ان کے ساتھ ہوجاتے۔
اور جب ان میں سے کوئی ایک ان باتوں میں سے کسی ایک کو تسلیم نہ کرتا تو یہ ان کی صحبت اور رفاقت (ساتھ چلنے کو) چھوڑ کر دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوجاتے (اور ان سے بھی یہی تین باتیں منوا کر ان کے ساتھ چلتے)۔ (جاری ہے)
(اعتذار: جمعہ کی اشاعت میں سہواً ’’تابعین کے ایمان افروز واقعات‘‘ کی ساتویں قسط جو جمعرات کو چھپی تھی، دوبارہ شائع ہوگئی۔ غلطی کے ذمہ داروں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جا رہی ہے۔ قارئین سے معذرت)
٭٭٭٭٭
Next Post