اپنی حکومت کے ابتدائی سو دنوں کی کارکردگی میں وفاقی کابینہ کے تمام وزیروں کو کامیاب قرار دینے والے وزیر اعظم عمران خان نے خیبر پختونخوا کی حکومت کے سو روزہ منصوبے کے حوالے سے پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا، بلکہ حکم دیا ہے کہ کام نہ کرنے والے بیورو کریٹس کو نکال دیا جائے۔ ایسے وزراء بھی گھر جائیں گے، پھر کوئی نہ کہے کہ مجھے کیوں نکالا۔ عمران خان نے کہا کہ اب ہمیں کسی فارورڈ بلاک کا ڈر نہیں۔ وزیروں اور منتخب لوگوں نے کام نہیں کیا تو عوام انہیں ڈنڈے ماریں گے۔ بیورو کریسی کی سوچ ہے کہ سرمایہ کاری اچھی چیز نہیں، لیکن ہمیں سرمایہ کاروں کیلئے آسانیاں پیدا کرنی ہیں۔ جہاں امیر اور غریب میں فرق ہو، وہ ملک کیسے فلاحی ریاست بن سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ تمام باتین اس صوبے میں کہیں، جہاں ان کی پارٹی گزشتہ پانچ سال تک برسراقتدار رہی اور آج بھی ہے۔ 2013ء کے انتخابات سے قبل کئے جانے والے ان کے وعدوں میں شاید ایک بھی پورا نہیں ہوا۔ بیورو کریسی، تعلیم، صحت، انتظامیہ بالخصوص پولیس اور دیگر اداروں کی کارکردگی میں کوئی ایسی تبدیلی بھی نظر نہیں آتی، جس سے عام آدمی کی غربت، مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی واقع ہوئی ہو۔ سارا نظام دوسرے صوبوں کی طرح جوں کا توں چل رہا ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا کے شہری بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ عمران خان نے وفاقی وزیروں کو تو قومی چیلنجوں سے نمٹنے کے امتحان میں پاس کر دیا ہے، لیکن پانچ سال سے خیبر پختونخواہ میں کام کرنے والی اپنی پارٹی کی حکومت کو حکم دیا ہے کہ کام نہ کرنے والے بیورو کریٹس کو نکال دیا جائے۔ گویا پانچ سال تک انہیں کام کرنے کی اجازت دی گئی، لیکن اب وفاق اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومتوں پر جو شدید عوامی ردعمل سامنے آ رہا ہے، اس کے جواب میں اپنے وزیروں، مشیروں کی ناقص کارکردگی کا بیشتر ملبہ نوکر شاہی پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار وفاق اور صوبہ پنجاب کے متعدد اداروں کا دورہ کر کے ان کی بدترین کارکردگی پر اظہار برہمی کر چکے ہیں۔ یاد رہے کہ بیورو کریسی کے کارندے کیسے ہی کھڑپینچ کیوں نہ ہوں، وہ حکومت اور اپنے محکمے کے وزیروں کی ماتحتی ہی میں کام کرتے ہیں۔ بالائی سطح پر کوئی تبدیلی دیکھیں تو ان کے اشارئہ ابرو سے پہلے ہی خود کو تبدیل کر لینے میں ذرا دیر نہیں کرتے۔ پانچ سال بعد صوبہ خیبر پختونخوا میں اپنی ناکامی چھپانے کے لئے تحریک انصاف کے سربراہ اور اب ملک کے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کام نہ کرنے والے بیورو کریٹس کو نکال باہر کرنے کا حکم سیاسی اور حکومتی معاملات میں ان کی ناپختہ سوچ کا بھی غماز ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ عثمان بزدار ایماندار اور دلیر شخص ہیں۔ انہوں نے پیسے ضائع نہیں کئے اور یہی اصل تبدیلی ہے، جبکہ سابقہ حکمرانوں نے اپنی شاہ خرچیوں کے ذریعے ملکی خزانہ خالی کر دیا۔
ان سے پوچھا جاسکتا ہے نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر اور دیگر ادارے جو دعوے کر رہے ہیں کہ انہوں نے کرپشن کے خلاف کارروائیوں میں اربوں روپے قومی خزانے میں واپس کرا دیئے ہیں، انہیں ضائع نہیں کیا گیا تو آخر خرچ کہاں کیا گیا، جس سے مظلوم شہریوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نظر آتی اور انہوں نے سکھ کا سانس لیا ہوتا۔ وہ تو پہلے سے زیادہ غربت اور مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں۔ دوسری طرف چیف جسٹس ثاقب نثار کہتے ہیں کہ وہ سست روی کا شکار ہے۔ ہم ایک کام کہتے ہیں، وہ بھی اس سے نہیں ہوتا۔ صوبے میں صحت کے سارے کام رکے ہوئے ہیں، جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بیورو کریٹس کی طرح کام نہ کرنے والے وزیروں کو گھر بھیجنے کی تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بھی گھر جائیں گے۔ پھر کوئی نہ کہے کہ مجھے کیوں نکالا۔ اگر وزیراعظم ساڑھے تین ماہ بعد بھی اپنے بعض وزیروں کی ناقص کارکردگی کا اندازہ کر کے انہیں گھر نہیں بھیج سکے تو ملک بھر کے عوام کیا پانچ سال تک انہیں بھگتتے رہیں؟ عمران خان کی یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ سابقہ حکمرانوں اور ان کے اعزہ و اقارب کے برعکس اس مرتبہ اگر عوام کے منتخب نمائندوں اور وزیروں نے کام نہیں کیا تو عوام انہیں ڈنڈے ماریں گے، اگلے انتخابات کا انتظار نہیں کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی باشندوں کی قوت برداشت اب جواب دے چکی ہے۔ عمران خان سے انہوں نے زیادہ امیدیں وابستہ کر لی تھیں، اس لئے ان کی ناکامی پر عوامی ردعمل بھی اتنا ہی شدید ہو گا۔ وزیراعظم فرماتے ہیں کہ جہاں امیر اور غریب میں فرق ہو، وہ ملک کیسے فلاحی ریاست بن سکتا ہے۔ ان سے پہلے کسی سیاستدان نے برسراقتدار آ کر پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کا وعدہ نہیں کیا۔ عمران خان نے اس جانب پیش رفت کا معمولی مظاہرہ بھی نہیں کیا ہے تو یہ وعدہ کب اور کس طرح پورا ہوگا؟ عملی تو بہت دور کی بات ہے، ان کی سوچ کا آج بھی یہ عالم ہے کہ بھینسیں بیچ کر مذاق اڑانے کے جواب میں کہتے ہیں کہ وزیراعظم کو جو تنخواہ ملتی ہے، اس سے تو میرا بنی گالہ کا خرچہ بھی نہیں نکل سکتا۔ امیر اور غریب کا فرق مٹانے کی بات کرنے والے وزیراعظم عمران خان قوم کو ذرا یہ بھی بتادیں کہ وہ بنی گالہ پر کتنا خرچ کرتے ہیں اور اس کیلئے ان کے پاس آمدنی کے ذرائع کیا ہیں؟ جائز و ناجائز سے قطع نظر، کیا کسی غریب ملک کے حکمران کو یہ فضول خرچی زیب دیتی ہے، جو بالخصوص اس صورت میں کہ وہ امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق مٹا کر پاکستان کو ایک مثالی فلاحی ریاست بنانے کے دعویدار ہیں۔ عمران خان ذاتی، خاندانی اخراجات کے علاوہ اپنے دیگر مشاغل پر خرچ کرنے والی بے تحاشا رقم بچا کر ہی مفلوک الحال ملک اور مفلس عوام پر خرچ کرنے کی کوئی مثال قائم کر دیں، تو ان کے سارے ارب کھرب پتی وزیر و مشیر اور ساتھی بھی ان کی پیروی کرنے لگیں گے۔ قوم کا اپنے وزیراعظم سے ایک سوال یہ ہے کہ کیا ان کی کابینہ میں کوئی ایک بھی غریب شہری شامل ہے؟ اگر نہیں تو عمران خان سمیت انہیں غریبوں کا دکھ درد کیسے محسوس ہو سکتا ہے؟ ملک کے بائیس کروڑ شہری جن عذابوں سے شب و روز گزار رہے ہیں، ان کا معمولی مزا بھی چکھے بغیر، ان سے ہمدردی کے تمام دعوے جھوٹے ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭