محدثین کے حیران کن واقعات

0

امام دارقطنیؒ کا حافظہ غیر معمولی اور بے نظیر تھا۔ نہ صرف احادیث بلکہ دوسرے علوم کا بھی ان کا سینہ مخزن تھا۔ بعض شعراء کے دواوین بھی ان کو ازبر تھے۔ قدیم عربوں کی طرح وہ تحریر و کتابت کے بجائے اکثر اپنے حافظے سے ہی کام لیتے تھے۔ اپنے تلامذہ کی کتابیں زبانی املا کراتے تھے۔ تذکرہ نگاروں نے ان کو ’’الحافظ الکبیر، الحافظ المشہور، کان عالماً حافظًا‘‘ وغیرہ لکھا ہے۔ امام ذہبیؒ نے ان کو ’’حافظ الزماں ‘‘ کہا ہے۔ حاکمؒ فرماتے ہیں کہ وہ ’’حافظے میں یکتائے روزگار تھے۔ ‘‘ سمعانیؒ کا بیان ہے کہ: ’’دارقطنیؒ کا حافظہ ضرب المثل تھا۔ ‘‘ علامہ ابن جوزیؒ رقم طراز ہیں کہ: ’’وہ (دارقطنی) حافظہ میں منفرد اور یگانہ عصر تھے۔ ‘‘ حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ ’’بچپن ہی سے دارقطنیؒ اپنے نمایاں اور غیر معمولی حافظے کے لئے مشہور تھے۔ ‘‘
ابوالطیب طاہر طبریؒ کا بیان ہے کہ ’’بغداد میں جو بھی حافظ حدیث آتا، وہ امام دارقطنیؒ کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتا اور اس کے بعد اس کے لئے ان کی علمی بلند پائیگی اور حافظے میں برتری اور تقدم کا اعتراف کرنا لازمی ہو جاتا۔‘‘
ان کے حافظے اور ذہانت کا یہ حال تھا کہ ایک ہی نشست میں ایک ہی روایت کی بیس بیس سندیں برجستہ بیان کر دیتے تھے۔
حافظ ذہبیؒ نے اس طرح کے ایک واقعہ کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس کو دیکھ کر دارقطنیؒ کی بے پناہ ذہانت، قوت حافظہ اور غیر معمولی فہم و معرفت کے سامنے سرنگوں ہو جانا پڑتا ہے۔
شباب کے زمانے میں ایک روز وہ اسماعیل صفار کے درس میں شریک ہوئے۔ وہ کچھ حدیثیں املا کروا رہے تھے۔ امام دارقطنیؒ کے پاس کوئی مجموعہ حدیث تھا، یہ بیک وقت اس کو نقل بھی کرتے جاتے تھے اور صفار سے حدیثیں بھی سن رہے تھے۔ اس پر کسی شریک مجلس نے ان کو ٹوکا اور کہا: تمہارا سمع صحیح اور معتبر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ تم لکھنے میں مشغول ہو اور شیخ کی مرویات کو ٹھیک سے سمجھنے اور سننے کی کوشش نہیں کر رہے ہو۔
امام دارقطنیؒ نے جواب دیا کہ: ’’املا کو سمجھنے میں میرا طریقہ آپ سے مختلف ہے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ حضرت شیخ نے اب تک کتنی حدیثیں املا کرائی ہیں ؟‘‘ اس شخص نے نفی میں جواب دیا۔
تو آپ نے فرمایا کہ: ’’اب تک اٹھارہ حدیثیں املا کرائی ہیں۔‘‘
شمار کرنے پر وہ واقعی اٹھارہ ہی نکلیں۔ پھر آپ نے ایک ایک حدیث کو بے تکلف بیان کر دیا اور اسناد متون میں وہی ترتیب بھی قائم رکھی جو شیخ نے بیان کی تھی۔ پورا مجمع اس حیرت انگیز ذہانت اور غیر معمولی حافظہ کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ (تذکرۃ المحدثین، حصہ دوم، ص: 75)
امام دارقطنیؒ حدیث کے علاوہ دوسرے علوم اسلامیہ یعنی تفسیر، فقہ، اصول فقہ، قرأت، صرف ونحو اور تجوید میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔ قرآن اور علوم قرآن وتفسیر سے انہیں بڑا شغف تھا۔ ارباب سیر اور تذکرہ نویسیوں نے آپ کو درج ذیل الفاظ سے یاد کیا ہے:
امام دارقطنیؒ جہاں صاحب علم وفضل تھے۔ وہاں آپؒ زہد ورع اور تقویٰ میں بھی بے مثال تھے، فہم و دانش میں بھی یکتائے روزگار تھے اور سب سے بڑا وصف جو امام دارقطنیؒ میں موجود تھا کہ آپ دین کے معاملے میں کسی قسم کی مصلحت، نرمی اور مداہنت کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کے زمانے میں فتنے کا زور تھا۔ لیکن آپؒ نے ہمیشہ اہل حق کا علم بلند رکھا۔
امام دارقطنیؒ شافعی المذہب تھے۔ لیکن ان کا شمار اس مذہب کے صاحب وجوہ فقہاء میں ہوتا ہے اور صاحب وجوہ فقہاء وہ کہلاتے ہیں جنہوں نے اپنے ائمہ کے مذاہب کی تکمیل اور ان سے منسوب مختلف روایات کے درمیان تطبیق وترجیح اور ان کے وجود علل واضح کئے ہوں، اس لئے مورخ ابن خلکان (م681ھ) آپ کو شافعی فقیہ لکھا ہے۔
علامہ شبیر احمد عثمانیؒ (م1949ئ) لکھتے ہیں:
’’امام دارقطنیؒ شافعی مذہب کی طرف مائل تھے۔ مگر وہ مجتہدین اور ائمہ حدیث وسنت میں تھے۔ ان کا حال اپنے مابعد کے اکابر محدثین کی طرح نہیں تھا جو سوائے چند گنے چنے مسائل کے عموماً تقلید کو لازمی سمجھتے تھے۔ امام دارقطنیؒ فقہ و اجتہاد اور علم میں ان لوگوں سے فائق وبرتر تھے۔‘‘
امام دارقطنیؒ صاحب تصانیف کثیرہ تھے۔آپ کی تمام تصانیف مفید،بلند پایہ اورحسن لطیف کا نمونہ ہیں۔ آپ کی زیادہ تصانیف حدیث،اصول حدیث اور رجال کے موضوع پر ہیں ارباب سیر اور تذکرہ نویسوں نے آپ کی 24 تصانیف کا ذکر کیا ہے۔جن میں اکثر وبیشتر نایاب ہیں۔ آپؒ کی سب سے مشہور کتاب سنن دارقطنی ہے۔
سنن دار قطنی امام صاحب کی سب سے اہم اور مشہور تصنیف ہے۔صحاح ستہ کے بعد جو کتابیں شہرت وقبول اور وثوق واعتبار کے لحاظ سے ممتاز اور اہم مانی جاتی ہیں، ان میں سنن دارقطنی بھی شامل ہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More