تابعین کے ایمان افروز واقعات

0

حضرت عامرؒ ان مجاہدین میں سے تھے، جو زیادہ تر مشکل مراحل، سخت جنگوں اور پر خطر جگہوں میں مجاہدہ اور قربانیوں کے مواقع پر نظر آتے تھے۔ غنیمت کی تقسیم کے موقع پر بہت کم دکھائی دیتے تھے (کیوں کہ ان میں دنیاوی مال و اسباب کی حرص اور لالچ بالکل نہیں تھی)۔ وہ جنگ کے شعلوں میں ایسے کودتے اور ایسے گھستے تھے کہ ان کے علاوہ کوئی اس طرح نہیں گھستا تھا، لیکن مال غنیمت سے اس طرح دور رہتے تھے کہ کوئی اور اس طرح دور نہیں رہتا تھا۔
یہ اس زمانے کی بات ہے کہ ’’جنگ قادسیہ‘‘ کے بعد جب حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کسریٰ کے محل میں پہنچے اور ’’عمرو بن مقرن‘‘ کو مال غنیمت جمع کرنے اور حساب لگانے کا حکم دیا، تاکہ خمس (پانچواں حصہ) نکال کر مسلمانوں کے بیت المال کے لیے مدینہ منورہ بھیج دیا جائے اور بقیہ مال غنیمت مسلمانوں پر تقسیم کردیا جائے۔
چناں چہ انہوں نے (یعنی عمرو بن مقرن نے) مال اور تمام قیمتی اشیاء وہیں جمع کردیں، ایسی بہترین پاکیزہ اور عمدہ چیزیں کہ جن کی تعریف کرنا مشکل اور اس قدر کثیر تعداد میں کہ ان کا گننا مشکل تھا۔
ایک طرف بڑے بڑے صندوق جو سونے چاندی کے برتنوں سے بھرے ہوئے تھے، جن میں فارس کے بادشاہ کھاتے پیتے تھے۔ دوسری طرف عمدہ لکڑی کے صندوق تھے، جن میں کسریٰ کے بادشاہوں کے کپڑے، قیمتی ہار و موتی اور جواہرات سے جڑے ہوئے سونے کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ نیز عمدہ خوشبو اور پسندیدہ زیورات سے بھرے ہوئے تھال بھی پڑے تھے۔
اور بہترین قیمتی نیام (میان) بھی جن میں فارس کے سابقہ بادشاہوں کی بہترین تلواریں رکھی ہوئی تھیں۔ ان بادشاہوں اور حکمرانوں کی تلواریں بطور یادگار رکھی جاتی تھیں، جنہوں نے اپنے وقت میں تاریخی کارنامے سرانجام دیئے ہوں۔
بہرحال جب ذمہ دار لوگ تمام حاضرین مسلمانوں کے سامنے مال غنیمت کی تقسیم میں لگے ہوئے تھے، تو اچانک ایک غبار آلود پراگندہ بالوں والا ایک شخص نمودار ہوا، جس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں ایک بڑا وزنی تھیلا اٹھایا ہوا تھا۔
اس آدمی کو آتے ہوئے دیکھ کر تقسیم کرنے والے نے غور سے دیکھا تو اس کے پاس ایسا تھیلا تھا کہ ان لوگوں نے ایسا تھیلا کبھی نہیں دیکھا تھا اور ان لوگوں نے جتنا مال غنیمت جمع کیا تھا، اس میں سے کوئی چیز بھی (قیمت کے اعتبار سے) اس تھیلے کے برابر یا اس کے قریب بھی نہیں تھی۔ کیوں کہ جب انہوں نے کھول کر دیکھا تو وہ اعلیٰ اور نادر ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے اس لانے والے شخص سے پوچھا: ’’ایسا قیمتی خزانہ آپ کو کہاں سے ملا؟‘‘
انہوں نے جواب دیا: ’’فلاں لڑائی میں فلاں جگہ پڑا ہوا ملا!‘‘
انہوں نے پھر پوچھا: ’’کیا آپ نے اس میں سے کچھ لیا ہے؟‘‘
وہ کہنے لگے: ’’خدا کی قسم! یہ تھیلا کیا چیز ہے، فارس کے بادشاہوں کے تمام خزانے اور ان کے سارے مال و دولت کی میرے نزدیک ناخن کے اس ٹکڑے کی طرح بھی حیثیت نہیں ہے، جو ہاتھ سے کٹ کر گر جائے۔ اگر مجھے مسلمانوں کے بیت المال کے حق کا خیال نہ ہوتا تو میں کبھی بھی یہ اٹھا کر تمہارے پاس نہ لاتا۔‘‘
ان لوگوں نے پھر پوچھا: ’’خدا آپ کو جزائے خیر دے، آپ کون ہیں؟‘‘
تو وہ کہنے لگے: ’’خدا پاک کی قسم! نہ تو تمہیں اپنا تعارف کراؤں گا کہ تم میری تعریف کے گیت گاؤ اور نہ تمہارے علاوہ کسی کو بتاؤں گا کہ وہ مجھے شاباش دے، بلکہ میں تو اپنے رب کے تعریف کروں گا اور اسی سے اجرو ثواب کی امید رکھوں گا۔‘‘
یہ کہہ کر وہاں سے اٹھے اور چل دیئے تو ان لوگوں نے اپنا ایک آدمی ان کے پیچھے لگا دیا کہ اس آدمی کی خبر لائے۔ وہ آدمی ان کے پیچھے چپکے چپکے چلتا رہا، تاکہ ان کو خبر نہ ہو، یہاں تک کہ یہ اپنے ساتھیوں میں پہنچ گئے۔
وہ آدمی بھی پیچھے پیچھے پہنچ گیا اور اس نے ان لوگوں سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا:
’’کیا آپ ان کو نہیں جانتے؟ یہ تو بصرہ کے زاہد (پرہیزگار) عامرتمیمی ہیں۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More