احمد خلیل جازم
حضرت یہوسوع المعروف یوشع بن نون علیہ السلام کا مزار گجرات کے موضع ٹبہ دھمتھل، کڑیانوالہ تا ٹانڈا روڈ پر واقع ہے۔ گجرات سے دو گھنٹے کی مسافت پر قدیم قبرستان اور برگد کے گھنے درختوں کے درمیان یہ مزار موجود ہے۔ دھمتھل گائوں سے باہر ایک ٹبہ ہے، جس کے عین اوپر نو گزی لمبی قبر موجود ہے، جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت یوشع بن نونؑ کی ہے۔ تاریخ میں حضرت یوشع بن نونؑ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خادم کہا گیا ہے، جنہیں حضرت موسیٰؑ کی رحلت کے بعد نبوت ملی تھی۔ حضرت یوشع بن نونؑ کے بارے مزید روایات میں بتایا جاتا ہے کہ ’’حضرت یوشع، خادم حضرت موسٰی کلیم اللہ، ہمسفر مجمع البحرین، زوار حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت موسٰی کلیم اللہ علیہ السلام کے رشتے میں بھانجے تھے۔ آپؑ حضرت موسٰی کلیم اللہ علیہ السلام کے ذاتی خادم بھی کہلاتے تھے، ساتھی بھی تھے، بھانجے بھی تھے اور ان کی رحلت کے 28 سال بعد بنی اسرائیل کے نبی بھی مبعوث ہوئے تھے۔ آپ حضرت یوسف علیہ السلام نبی اللہ کی اولاد میں سے بھی تھے۔ آپ کا اصل نام سعیا تھا، جس کو حضرت موسٰی کلیم اللہ علیہ السلام نے تبدیل کرکے یوشع بن نون کردیا۔ جبکہ انجیل مقدس میں یہوسوع علیہ السلام کے نام سے جانے اور مانے جاتے ہیں۔‘‘ قرآن کریم میں آپ کا ذکر نام لیے بغیر سورہ کہف میں کیا گیا ہے ’’جب موسیٰ نے اپنے نوجوان سے کہا‘‘۔ سورہ کہف میں مزید کہا گیا کہ ’’جب یہ دونوں وہاں سے آگے بڑھے، تو موسیٰ نے اپنے نوجوان سے کہا۔‘‘
حضرت یوشع بن نون کا شجرہ قصص الانبیا میں یوں بیان کیا جاتا ہے’’حضرت یوشع بن حضرت نون بن حضرت البیمغ بن حضرت الیمہود بن حضرت بغدان بن حضرت تحسن بن حضرت تلاح بن حضرت رفاح بن حضرت بریعہ بن حضرت فرائیم بن حضرت یوسف علیہ السلام بن حضرت یعقوب علیہ السلام بن حضرت اسحاق علیہ السلام بن حضرت ابراہیم علیہ السلام۔‘‘ لیکن یہ شجرہ مزار مبارکہ پر کہیں بھی درج نہیں ہے۔ آپ کو حضرت یوسفؑ کی اولاد حضرت افرائیم سے بتایا جاتا ہے۔ دھمتھل میں حضرت یوشع بن نون کی قبر کے بارے میں تفصیلات جاننے کیلئے امت ٹیم جب دھمتھل پہنچی تو اس وقت مزار پر لوگوں کا آنا جانا جاری تھا۔ چونکہ جمعہ کا دن تھا، اس لیے لوگ بعد نماز جمعہ مزار پر حاضری دے کر اپنے حق میں دعائیں مانگ رہے تھے۔ مزار کے متولی کے بارے میں معلوم کیا تو بتایا گیا کہ مزار کے پہلے متولی علم دین کے پوتے نذر عباس یہاںکے متولی ہیں، جو فی الحال موجود نہیں ہیں۔ یہاں بعض لوگوں سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا تھاکہ ’’حضرت یوشعؑ کو بعض لوگ یوشہ بن نون بھی کہتے ہیں۔ لیکن آپ کا اصل نام یوشع بن نون ہی ہے اور آپ ہی حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونؑ کے خادم کہلاتے تھے، جنہیں بعد ازاں نبوت سے سرفراز کیا گیا‘‘۔ یہاں سوال یہ تھا کہ اگر یہ قبر حضرت یوشع بن نونؑ کی ہے تو استنبول میں واقع جن پہاڑی کے پاس جو قبر ہے اور جسے یوشع بن نون کی قبر کہا جاتا ہے، وہ کس کی ہے یا پھر اردن میں دفن ضریع یوشع بن نون کون ہیں۔ اس حوالے سے مختلف لوگوں کی رائے لی گئی، لیکن ہر کسی نے اسی قبر کو اصل قبر کہا۔ اس حوالے سے اگلی سطور میں ان لوگوں کا ذکر کیا جائے گا، جنہوں نے اردن میں حضرت یوشع بن نون کی قبر پر حاضری دی ہے۔کتاب ’’گجرات تاریخ کے آئینے میں‘‘ لکھا ہے کہ ’’بعض روایات کے مطابق ان مقدس مقامات کی حفاظت جنات کرتے ہیں۔ صدیاں گزرنے کے باوجود اللہ کے نیک بندوںکے نشانات نہیں مٹ سکے۔ انسانی بستیاں اجڑ گئیں، صفحہ ہستی سے مٹ گئیں، لیکن ان نیک ہستیوں کے نشان قائم و دائم ہیں۔ وہ صرف اہل نظر ہی پہچان سکتے ہیں۔ موضع دھمتھل کے مزار کے متولی علم دین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سائیں نصیب علی شاہ صاحب کے فرمان کے مطابق یہاں پچاس برس گزار کے فوت ہوئے۔ آپ کے مرشد حضرت نصیب علی شاہ نے 41 دن یہاں چلہ کشی کی۔ بعد ازاں علم دین متولی نے 1977ء میں اہل دیہہ کے تعاون سے پختہ مزار تعمیرکرا کے اس کے اوپر چھت ڈال دی۔ اس وقت مزار پر ہزاروں روپے خرچ ہوئے، جو تمام اہل دیہہ نے فراہم کیے۔ علم دین یہاں دن رات قیام کرتے، مسافروں کے علاوہ مزار پر حاضری دینے والوں کی خاطر تواضع کا بھی اہتما م کرتے۔‘‘ حضرت یوشع بن نونؑ کا مزار عین اس جگہ واقع ہے، جہاں سے تین چار سمت پکی سڑکیں نکل رہی ہیں اور اسی ٹبہ کے نیچے چوک واقع ہے، جہاں سے لوگ، سگھر، سرہالی، حسن ڈھینڈہ، کاسب وزیر، لاٹی پنڈی اور کڑیاں والا کی طرف جاتے ہیں۔ یہاں اکثر مسافر آکر رکتے ہیں، اب تو ذرائع آمدورفت زیادہ ہوگئے ہیں، لیکن ستر کی دہائی میں یقیناً یہاں سڑکیں نہیں تھیں اور لوگ پیدل یا پھر جانوروں پر سفر کرتے تھے۔ اکا دکا بس چلتی تھی، جو وقت مقررہ پر آتی ہوگی، اس کے بعد مسافروںکیلئے کوئی ٹھکانہ نہ تھا، یہ مزار اور اس سے متصل چند کمرے ہی مسافروں کیلئے غنیمت ہوتے۔ بعد میں ان باتوںکی اہل دیہہ نے تصدیق بھی کی کہ اس وقت یہی عالم تھا۔ اب بھی اگر مزار کی زیارت کیلئے جایا جائے تو دھمتھل قصبہ ٹبے سے خاصے فاصلے پر ہے ، اور یہاں صرف رہائشی کمرے ہی ہیں، جو مسافروں کے لیے جائے پناہ ہوتے ہیں۔ مزار کے سامنے ایک بہت قدیم اور بڑا برگد کا درخت ہے، جس کے نیچے چاروں طرف جگہ اس خوبصورتی سے صاف کی گئی ہے کہ یہاں گرمیوں میں ٹبے کے اوپر خوب ٹھنڈی چھائوں میں آرا م کیا جاسکتا ہے۔ مزار کے اردگرد قبرستان اگرچہ قدیم ہے، لیکن حیران کن طور پر پورے قبرستان میں صفائی ستھرائی کا انتظام بہت عمدہ ہے اور قبروں کے درمیان ایک عمدہ ترتیب موجود ہے، جو دیگر کسی قبرستان میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’مزار کی تعمیر نو ایک مرتبہ پھر اہل دیہہ کے تعاون سے 11 فروری 1993ء کو کی گئی۔ اس مزار کے ساتھ تین اور بھی قدیم ترین قبور موجود ہیں۔ جو جدید تعمیرات کے وقت جب مزار کو کھلا کیا گیا تو مزار سے باہر نکال دی گئیں۔‘‘ واقعی مزار کے ساتھ دائیں طرف پانچ قدیم قبور ہیں، جبکہ بائیں جانب تین قبور ہیں جو مزار کے ساتھ ہی واقع تھیں اور انہیں مزار سے باہر نکالا گیا ہے۔ یہ قبور اس طرح باہر ہیںکہ صرف ان کی ضریع ہی باہر آتی دکھائی دیتی ہے۔ مزار پر موجود کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ چونکہ مزار کو اندر سے کھلا کرنا مقصود تھا، اس لیے ان قبور کو جب باہر نکالا گیا تو صرف ان کا اوپری حصہ ہی باہر آیا۔ چنانچہ بائیں دیوار کو دیکھیں تو اس کے ساتھ ایک لائن میں تین قبریں بالکل دیوار کے ساتھ جڑی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ مزار کے دروازے کے دائیں جانب علم دین کی قبر واقع ہے اور اس کے ساتھ ان کے بیٹے پیراں دتہ کی قبر ہے، یہ دونوں مزار کے اولین مجاور تھے، اب ان کا بیٹا نذر ہے، جو اس وقت مزار پر موجود نہیں تھا۔ اس مزار کے بارے روایت ہے کہ یہاں مزار کی حفاظت پر جنات مامور ہیں جس کی تفصیل بیان کی جائے گی۔ مزار سے دائیں جانب ٹبے کے نیچے والی سڑک سے ٹبے کے اوپر آنے کیلئے سیڑھیاں بنائی گئی ہیں، ان سیڑھیوںکے اختتام پر ٹبے کے اوپر بائیں جانب برگد کا درخت ہے اور پھر مزار کے جانب جانے والا خوبصورت راستہ دکھائی دتیا ہے جو کہ سنگ مرمر سے پختہ تعمیر کیا گیا ہے، تعمیر نو پر لاکھوں روپے خرچ ہوئے۔ پیراں دتہ جو کہ علم دین کا بیٹا تھا، اسے مزار کے حوالے سے بارہا اشارہ ہوا کہ اس کی تعمیر نو کرائی جائے۔ اس کو ’تعمیر کرو‘ کا اشارہ ہوتا تھا۔ چنانچہ پیراں دتہ نے مزار کی تعمیر نو کرنا چاہی اور صاحب مزار سے عرض کی کہ مزار تو بنا لوں گا لیکن مکمل ہونے پر نام کی تختی بھی نصب کرنا چاہوں گا، اگر اسم گرامی بتا دیا جائے۔ تو پھر اسے یوشع بن نون نام بتایا گیا، اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ قصبہ پوڑ، آزاد کشمیر میں جو مزار ہے، وہ آپ کے خالہ زاد بھائی شمعون ہیں۔ چنانچہ مزار مکمل ہونے کے بعد آپ کے نام کی تختی لگائی گئی۔
یہاں کا مجاور نذر ابھی تک نہیں آیا تھا، ایک بزرگ عبدالعزیز البتہ وہاں موجود تھے۔ انہوں نے اس درگاہ کے بارے میں بتایا کہ ’’چھالے شریف والی خانقاہ سے پیر نصیب علی شاہ صاحب یہاں سب سے پہلے تشریف لایا کرتے تھے۔ وہ چھالے شریف سے عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد اس مزار پر آجاتے، اس وقت یہ صرف قبر تھی اس پر کسی قسم کی تعمیرات نہیں تھیں۔ بعد ازاں وہ ٹانڈہ مزار پر جاتے، پھر شیخ چوگانی، بڑیلہ شریف اور پھر پوری رات ان مزارات پر عبادت کرکے فجر کی نماز کے وقت چھالے شریف پہنچتے اور وہاں جاکر نماز کی امامت فرماتے تھے۔ چھالے شریف والے پیر صاحب کا باقاعدہ حکم تھا کہ جس نے میری زندگی میں یا میری زندگی کے بعد چھالے شریف آنا ہے وہ پہلے اس درگاہ پر حاضری دے اور بعد میں چھالے شریف آئے۔ یعنی پیر نصیب علی شاہ نے اس درگاہ کو سب پر فضلیت دے رکھی تھی۔ انہوں نے یہاں 41 روز چلہ کشی کی، بعد میں اپنے مرید خاص علم دین کو یہاں تعینات کرنے سے قبل اس سے بھی ایسی ہی چلہ کشی کرائی اور پھر اس کو حکم دیا کہ وہ مستقل یہاں پر رہے گا۔‘‘ یہاں پر کرامات کے حوالے سے عبدالعزیز نے بہت دلچسپ باتیں بتائیں اور یہ بھی بتایا کہ یہاں دور دراز سے لوگ منتیں اور مرادیں مانگنے آتے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Next Post