ایس اے اعظمی
مصری صحافی احمد ابراہیم الشریفی نے دعویٰ کیا ہے کہ عراقی مرد آہن شہید صدام حسین کو ایک غدار گارڈ نے امریکیوں سے پچیس ملین ڈالرز وصول کرکے گرفتار کرایا۔ اس غدار کا نام ابراہیم بتایا گیا ہے جو صدام حسین کا ایک اہم محافظ تھا اور اس کو صدام حسین کی روپوشی کا بھی علم تھا۔ ان کے جائے روپوشی کے بارے میں یہ واقفیت رکھتا تھا لیکن اس کے دل میں ڈالر کا لالچ در آیا اور اس نے امریکیوں سے اپروچ کرکے ان کو آفر کی کہ اگر اس کو ٹاسک دیا جائے تو وہ صدام حسین کی روپوشی کا راز افشا کرسکتا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی کٹھ پتلی عراقی حکومت نے صدام حسین کیخلاف جانبدارانہ انداز میں مقدمہ چلا کر ان کو 13 دسمبر 2006ء میں پھانسی دے دی تھی، جبکہ ان کو پھانسی دیئے جاتے وقت بھی توہین کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ امریکی مصنف جان نکسن نے صدام کی گرفتاری میں مدد فراہم کرنے والے صدام حسین کے محافظ ابراہیم کو گرفتار کرنے والے فوجی اہلکار فرسٹ سارجنٹ ایرک میڈوکس کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ہم نے ابراہیم کے گرد جال بچھا دیا اور اس کے اہل خانہ سمیت ددھیال کے 40 مردوں اور خواتین کو اُٹھا کر حراست میں ڈال دیا اور ابراہیم کو پیغام بھجوایا کہ اگر صدام کے حوالہ سے ’’تعاون‘‘ نہ کیا تو خود بھی مرو گے اور اہل خانہ کو بھی موت کے منہ میں دھکیلو گے۔ لیکن جلد ہی ابراہیم کو ٹریس کرلیا گیا اور ابراہیم نے صدام حسین کی گرفتاری کیلئے تعاون کرنے سے اتفاق کیا اور نا صرف اپنے اہل خانہ کو امریکیوں کی قید سے نکلوالیا بلکہ پچیس ملین ڈالر کا انعام بھی لے لیا۔ واضح رہے کہ عراق پر ایک عرصہ تک حکومت کرنے والے مرد آہن صدام حسین کے بارے میں مصری جریدے الیوم السابع نے ایک میں لکھا ہے کہ صدر صدام حسین کے ایک محافظ محمد ابراہیم نے ہی ان کی جائے پناہ کا راز امریکیوں پر کھول دیا تھا اور اس کے بدلہ میں ڈھائی کروڑ امریکی ڈالرز کیش وصولا تھا، لیکن اس بارے میں امریکیوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اپنے انٹیلی جنس معلومات کی بنیادوں پرصدام حسین کو گرفتار کیا تھا۔ لیکن اسی دور میں امریکا کے اشاروں پر چلنے والی عراقی حکومت نے بھی دعویٰ کردیا تھا کہ اس کی انتھک کوششوں کے نتیجہ میں صدام حسین کو گرفتار کرکے ہتھکڑیاں لگائی گئیں اور بعد ازاں ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ واضح رہے کہ امریکی لکھاری جان نکسن نے بھی اپنی ایک کتاب ’’صدام سے تفتیشی سوالات‘‘ میں اس کہانی کو اُجاگر کیا ہے اور بتایا ہے کہ امریکی عساکر کو صدام حسین ہی کے ایک محافظ نے مخبری کرکے گرفتار کروایا تھا اور اس کے بدلہ میں محافظ ابراہیم کو ڈھائی کروڑ ڈالرز کا انعام بھی دیا گیا تھا۔ صدام حسین کا ایک وقت میں قریبی محافظ رہنے والا ابراہیم بھی اگر چہ کہ امریکی و اتحادی افواج کے حملوں کے بعد روپوش ہوگیا تھا لیکن بعد ازاں امریکی انٹیلی جنس نے بعث پارٹی کے منتشر ہوجانے والے عناصر کی مدد سے صدام کے محافظ ابراہیم کا پتا چلا کر گرفتار کرلیا تھا، جس کے بارے میں ایک امریکی انٹیلی جنس افسر کا ماننا تھا کہ ابراہیم کی گرفتاری یا ہاتھ آجانا اس لئے بھی ضروری تھا کہ جب 2003ء میں عراق پر اتحادی و امریکی حملوں کے بعد صدام حسین اور ان کا خاندان روپوش ہوگیا تھا تو ان کی روپوشی کے آخری ایام میں صدام حسین کی حفاظت کے فرائض ابراہیم ہی انجام دے رہا تھا، جس کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ صدام حسین جہاں کہیں بھی گئے ہیں یا چھپے ہوئے ہیں اس مقام کے بارے میں چیف گارڈ ابراہیم کو یقینا علم ہوگا۔ امریکی مصنف جان نکسن نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس افسران کا یہ نکتہ بہت اہم تھا اور ابراہیم کی گرفتاری کے بعد جب اس نے تفتیش میں تسلیم کیا کہ روپوشی اختیار کرنے کے وقت کا اس کو علم تھا کہ صدام کہاں روپوش ہوئے تھے؟ صدام کے محافظ ابراہیم کے خیال میں صدام حسین ایک بار پھر اسی زرعی فارم میں روپوش ہوئے ہیں، جہاں انہوں نے 1958ء میں عراقی وزیر اعظم عبد الکریم قاسم کیخلاف ناکام بغاوت اور قاتلانہ حملے کے بعد پناہ لی تھی۔ ابراہیم نے امریکیوں سے اس سلسلہ میں ڈیل کرلی اور صدام کی روپشی کے مقام کی اپنے طور پر تصدیق بھی کی اور اس کے بعد امریکیوں سے ڈالرز کے بدلہ میں صدام کا سودا کرلیا۔ ادھر صدام حسین کی برسی کے موقع پر مصری جریدے کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی فوجی ترجمان مسٹر سمیر نے بتایا ہے کہ رات کو ایک بجے صدام حسین کے گرفتار محافظ ابراہیم کو امریکی اہلکار میجر مائیکل روہت کی سربراہی میں ہمارے پاس لایا گیا تھا، جس نے ہمیں اس بات کا یقین دلایا کہ میرے پاس صدام حسین کی موجودگی کے حوالہ سے بیش قیمت معلومات موجود ہیں اور وہ امریکیوں سے ’’تعاون‘‘ کرنا چاہتا ہے۔ اس پر ابراہیم سے ایک اعلیٰ امریکی افسر نے انٹرویو کیا۔ اس دوران محافظ نے اعلیٰ امریکی افسر کی میز پر ایک نقشہ رکھ کر دکھایا اور بتایا کہ یہ ایک باغ ہے اور اس باغ میں صدام حسین چھپا ہوا ہے اور اگر امریکی افواج چاہیں تو اس بات کی تصدیق کیلئے اس کو بھی موقع پر لے جایا جاسکتا ہے۔ اس موقع پر امریکی عسکری افسر جیمس ہیکی نے اعلیٰ امریکی افسر سے کہا کہ ہوسکتا ہے صدام حسین اس علاقہ میں دریائے دجلہ میں ایک نخلستان سے ملحق زرعی فارم میں یا باغ میں چھپا ہوا ہے۔ اس رات امریکی کمانڈوز نے صدام حسین کی گرفتاری کیلئے ایک ہزار سیکورٹی اہلکاروں پر مشتمل ایک چھاپہ مار ٹیم مقرر کی اور اس کی معاونت کیلئے اسپیشل فضائی ٹیم کو بھی تیار رکھا گیا تاکہ مزاحمت کی صورت میں اس کا سامنا کیا جاسکے۔ امریکی حکام نے الدور میں جو صوبہ صلاح الدین کا ایک مقام ہے اور دریائے دجلہ کے مشرق سمت میں موجود ہے، کے ایک فارم پر چھاپا مارا۔ علاقہ کو گھیرے میں لے لیا اور کم از کم تین مقامات کی تلاشیاں لی گئیں لیکن کسی بھی مقام سے صدام حسین کو بر آمد نہیں کروایا جاسکا لیکن جب ایک قدیم فارم کے ساتھ موجود پرانے مکان میں گھسے تو ایک فرد ملا، جو فارم کا مالک تھا، لیکن اس نے یہاں فارم ہائوس میں صدام حسین کی موجودگی سے صریح انکار کردیا اور کہا کہ ایسی کوئی معلومات اس کے علم میں نہیں۔ بعد ازاں امریکی اس مخبر محافظ کو سامنے لے آئے، جس نے باغ میں ایک مقام پر چٹائی کے پاس اپنا پیر مارا اور چیخ کر کہا کہ یہاں چھپا بیٹھا ہے صدام۔ یہ کہہ کر ابراہیم نے اس چٹائی کو اُٹھا پھینکا، جس کے نیچے ایک تہ خانہ تھا۔ امریکی کمانڈوز نے بندوقیں نکال کر تہ خانہ نما جگہ میں گھس کر اندر موجود صدام حسین کو باہر نکالا۔
٭٭٭٭٭
Prev Post