!
مقبوضہ کشمیر میں تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے وقت سے جاری بھارت کی ریاستی دہشت گردی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں حریت پسند کشمیریوں کی تحریک آزادی کم ہونے کے بجائے بتدریج تیز ہو رہی ہے۔ انہوں نے بھارت کے اس خواب کو اپنی مسلسل جدوجہد اور قربانیوں سے چکنا چور کردیا ہے کہ سات آٹھ لاکھ فوجیوں کو مقبوضہ کشمیر میں تعینات کرکے انہیں بھارت کے حق میں رام کرلیا جائے گا۔ ہفتے کو قابض بھارتی فوج کی براہ راست فائرنگ سے پلوامہ کے علاقے میں گیارہ نوجوان شہید ہوگئے، جن میں اعلیٰ تعلیم کے لئے آنے والا نوجوان عابد احمد لون بھی شامل تھا۔ بھارتی فوج کو وحشیانہ فائرنگ کے نتیجے میں دو سو پچاس سے زائد کشمیریوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ بھارتی فوجیوں نے پلوامہ میں ہفتے کی صبح آل آؤٹ آپریشن کے دوران تین نہتے بے گناہ کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا تھا، جس کے بعد ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ ذرائع کے مطابق تین مجاہدین کی جان بچانے کے لئے ڈھال بننے والے کشمیریوں میں سے آٹھ نے ان پر اپنی جانیں نچھاور کردیں۔ پاکستانی حکومتوں کی مظلوم کشمیری باشندوں سے سرد مہری کے باوجود گیارہ شہادتوں کے بعد انہوں نے بھارت کے خلاف جو مظاہرے کئے، اس دوران انہوں نے پاکستانی پرچم اٹھا رکھے تھے۔ ان کے احتجاج سے پوری فضا بھارت، اس کی حکومت اور فوج کے خلاف، نیز شہیدوں اور آزادی کے حق میں فلک شکاف نعروں سے گونج اٹھی۔ سری نگر سمیت مختلف تعلیمی اداروں اور عام مقامات پر شہیدوں کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ حریت قیادت نے تین روز کی ہڑتال اور سوگ کا اعلان کیا ہے، جبکہ حریت قائد میر واعظ عمر فاروق نے آج (پیر کو) بادامی باغ میں بھارتی فوجی چھاؤنی کی جانب مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ شرکا یہ مطالبہ کریں گے کہ بھارتی حکومت اور فوج علیحدہ علیحدہ وحشیانہ کارروائیوں کے بجائے تمام کشمیریوں کو ایک ساتھ ہی شہید کردے۔ مارچ کی اس کال پر سری نگر کی یونیورسٹیوں میں ہونے والے تمام امتحانات ملتوی کردیئے گئے ہیں۔ بھارت نواز کشمیری سیاستدان عمر عبداللہ نے بھی بھارتی فوج کی دہشت گردی کو مسلمانوں کی نسل کشی قرار دیا ہے۔ پاکستان نے پلوامہ میں پر امن مظاہرین پر بھارتی فوج کی فائرنگ کی سخت مذمت کی ہے۔ ایسی زبانی مذمت تو گورنر مقبوضہ کشمیر کے مشیر وجے کمار نے بھی کی ہے۔ انہوں نے پولیس (جبکہ فائرنگ کی ذمے دار فوج ہے) کو شہریوں کے خلاف ضبط و برداشت اور انسانی جانوں کی ہلاکتوں سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ اتوار کو سری نگر میں ایک اجلاس کے دوران انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں امن و امان کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے یہ ہدایات جاری کیں۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے سربراہ اور بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت اپنی فوج کے بہادر اور منظم ہونے کا ہر جگہ ڈھول پیٹتا ہے، لیکن حقیقت میں بھارت کے فوجی اتنے بزدل ہیں کہ وہ نہتے کشمیری باشندوں ہی پر گولیاں اور پیلٹ چلا سکتے ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان کا زور صرف ان پر امن مظاہرین پر چلتا ہے، جو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور خود بھارتی رہنماؤں کے وعدوں کی روشنی میں اپنے بنیادی انسانی حقوق طلب کرتے ہیں۔ ان وحشیانہ مظالم کے باوجود بھارت انسانیت اور جمہوریت کا عالمی چیمپئن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جو غلط ہی نہیں، نہایت شرمناک بھی ہے۔ سید علی گیلانی کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں احتجاج اور مظاہرے ہوتے ہیں، جن میں بعض پر تشدد بھی ہوتے ہیں، لیکن کہیں بھی ظلم و ستم کی وہ گرم بازاری نظر نہیں آتی جو مقبوضہ کشمیر میں دکھائی دیتی ہے۔ دنیا کا صرف یہی خطہ ایسا ہے جہاں مسلمانوں کو اپنے بنیادی انسانی حقوق طلب کرنے پر وحشیانہ مظالم کا ستر برسوں سے نشانہ بنایا جارہا ہے اور جن کے خلاف بھارت ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بندوقوں، پیلٹ گنوں، ہلاکتوں، گرفتاریوں، اغوا، خواتین کی بے حرمتی و آبرو ریزی، دہشت گردی اور خوف و ہراس کے تمام حربے استعمال کررہا ہے۔ وحشی درندے اپنے شکار کے ساتھ بھی ایسا سلوک نہیں کرتے جو بھارت نے نہتے کشمیریوں پر روا رکھا ہوا ہے۔ تاریخ انسانی کے بدترین ظالموں ہلاکو اور چنگیز خان کے مظالم بھی بھارتی افواج کی وحشت و درندگی کے آگے مات ہیں۔ 1989ء کے بعد تو بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و سفاکی کو انتہا پر پہنچا دیا ہے۔ سمانتر پوس نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ 1989ء سے 2002ء کے درمیان مقبوضہ وادی میں بھارتی اندازوں کے مطابق چالیس ہزار اور حریت ذرائع کے مطابق اسی ہزار افراد ہلاک ہوئے، جبکہ بعض آزاد ذرائع 1989ء کے بعد شہید ہونے والے کشمیری مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد بتاتے ہیں۔ بھارتی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق آپس کی لڑائی کے دوران ہلاک شدہ شہریوں کی تعداد تقریباً سترہ ہزار سے سینتالیس ہزار کے درمیان ہے، جبکہ صرف تین ہزار چھ سو بیالیس کشمیریوں کو بھارتی فوجیوں نے شہید کیا۔ اول تو شہداء کی تعداد میں تیس ہزار کا جو فرق خود بھارتی ذرائع نے ظاہر کیا ہے، وہ ناقابل یقین ہے یا پھر بھارت کی علم شماریات سے لاعلمی کا شاہکار۔ دوسری طرف لاکھوں شہداء کی تعداد چھپا کر بھارتی فوج کو اتنا معصوم ثابت کرنا نہایت مضحکہ خیز ہے کہ ان کے ہاتھوں صرف تین ہزار چھ سو بیالیس بے گناہ اور نہتے کشمیری باشندے شہید ہوئے ہیں۔ شہیدوں کی تعداد اس فرق سے قطع نظر، یہ امر عالمی برادری کی پیشانی پر بدنما داغ ہے کہ دنیا بھر میں صرف مسلمانوں پر مظالم کے سلسلے میں اس کی بے حسی قائم رہتی ہے، جبکہ غیر مسلموں کے مسائل حل کرنے میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے دوسرے عالمی چیمپئن بہت سرگرم و فعال نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک مثال مشرقی تیمور کی ہے، جہاں کے عیسائی باشندوں نے انڈونیشیا سے آزادی اور علیحدگی کا مطالبہ کیا تو اقوام متحدہ نے ان کے حق میں ایک قرارداد منظور کرکے ریفرنڈم کے ذریعے پانچ ماہ میں مشرقی تیمور کی آزادی کا نہ صرف اعلان کردیا، بلکہ اسے فوراً ہی اقوام متحدہ کا رکن بھی بنا دیا گیا۔ غیر مسلم دنیا سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی، لیکن دنیا کے ستاون مسلمان ملکوں نے بھی کبھی متفق و متحد ہوکر کشمیر اور فلسطین کے مسئلے حل نہیں کرائے۔ اس بے حسی کی ذمے داری ایک طرف پاکستان اور دوسری طرف عرب ممالک پر زیادہ عائد ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں غیروں سے شکایت کا کوئی جواز نہیں بنتا جب وہ خود ہی مسلمانوں پر مظالم کے خلاف مؤثر آواز بلند کرسکیں کہ ان میں کوئی عملی قدم اٹھانے کی جرأت ہو۔