مولانا کفایت اللہ نے پیچیدہ عقدہ ایک جملے میں کھول دیا تھا

0

قسط نمبر 13
محمد فاروق

محمد فاروق اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق رہنما ہیں۔ برطانیہ میں مقیم محمد فاروق نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’’غمزۂ خوں ریز‘‘ کے نام سے شائع کی ہے۔ جو نہ صرف ایک عہد کی آئینہ دار ہے، بلکہ اس میں شریعت و تصوف کے امتزاج کی لطافت بھی جابجا ملتی ہے۔ قارئین کیلئے ’’غمزۂ خوں ریز‘‘ کے منتخب ابواب پیش کئے جارہے ہیں۔

یہ میرے کالج کے دنوں کا آخری اور یونیورسٹی تعلیم کا بالکل ابتدائی زمانہ تھا۔ حضرت علامہ اقبالؒ کے کلام سے ابتدائی شناسائی تو پہلے ہی ہوگئی تھی، مگر جب کچھ مزید آگے بڑھنے کی کوشش کی تو، اس بات کا سختی اور شدت سے احساس ہوا کہ شاعر مشرق سے اس وقت تک صحیح معنیٰ میں مستفید نہیں ہوا جاسکتا، اگر قرآن پاک اور ساتھ ہی فلسفہ و کلام سے استفادہ نہ کیا جائے۔ یہ دھن جب سوار ہوئی، تو چھٹیوں کے دنوں میں اپنی چھوٹی سی لائبریری میں سردی کی طویل راتوں میں عشا کے وضو پر فجر کی نمازیں پڑھنا تقریباً معمول بن گیا۔ میری والدہ کبھی کبھی تشویش و فکرمندی کی حالت میں اوپر سیڑھیاں چڑھ کر میرے کمرے کی لائٹ ساری ساری رات روشن دیکھتیں تو پریشانی میں مجھے نہیں، بلکہ دوسروں کے سامنے کہتیں۔
’’سب ئی کران دے… ھلک حان مرکرو… دشمن دی شی‘‘
میں اس کا کیا ترجمہ کروں، بیچاری سمجھ رہی تھی کہ جو میری ’’سرکاری قسم‘‘ کی پڑھائی، یعنی کورس ہے، وہ اتنا مشکل ہے، کہ بس میں اس کے پیچھے جان دینے والا ہوں۔ حالانکہ کہاں جیالوجی اور کہاں فلسفہ۔ مقام شکر ہے کہ ’’حقوق نسوان و حقوق اطفال‘‘ سے باخبر اور ہیومن رائٹ کے شعور سے بہرہ ور کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ، جہانگیری برانڈ کی مم (mom) سے واسطہ نہیں پڑا تھا، ورنہ جب برخوردار کی یہ عیاشیاں ملاحظہ فرماتیں تو… اور کیا… چاروں طبق تو روشن ہونے ہی تھے۔ خاص کر جہاں میڈیکل کالج میں نہ جاسکنے کے ’’جرم عظیم‘‘ کے ارتکاب میں پہلے ہی ظل سبحانی کی ’’لازوال محبتوں‘‘ میں خر سند تھا۔
ہمارے اس بے مثل معاشرے میں عظیم والدین کی جناب میں ہر برخوردار کو اپنی عزت و توقیر کا صحیح اندازہ اس کے FSc رزلٹ نکلنے کے بعد ہی ہوجاتا ہے۔ گھر کے ظل سبحانی کو اس سے کوئی واسطہ ہی نہیں تھا کہ فکر و فلسفے اور شعر و ادب کے بے وقعت شغل کو پیدائشی طور پر اپنے ساتھ لانے والا یہ ’’نمک حرام‘‘ نہ تو دو جمع دو مساوی چار سے آگے بڑھنے کا روادار ہے کہ تو اسے انجینئر بنادے۔ نہ کیمسٹری کی مساوات (Equations) سے کبھی انصاف کا سلوک کر سکنے والے اس افلاطون ثانی کی شاخ بے ثمر پر تمہارے آرزوئے میڈیکل کا غنچہ کبھی کھل سکتا ہے۔ لیکن مجال ہے، کہ تکمیل آرزو کا جو آتش کدہ دہکایا گیا تھا اس میں اس پیدائشی مجرم کو جھونک دینے کے بغیر فارغ بیٹھا جاتا…! اگر مجھ جیسے داستان گو کو خوامخواہ ہی اپنے نگار خانہ آمریت میں مزین ’’فکر رسا‘‘ کے مطابق ’’بڑا آدمی‘‘ بنانے کی مہم جوئی نہ فرمائی جاتی اور اسے حالات کے رحم و کرم ہی کے حوالے کردیا جاتا… تو دانا پانی اس کا رب اسے کسی دوسرے مناسب تر ذریعے سے بھی عطا کرسکتا تھا… جیسا کہ اس نے عطا فرمایا بھی۔ مگر جو کھلواڑ اس کی معصوم شخصیت کے ساتھ کھیلا گیا، بے شک اخلاص و نیک نیتی سے صحیح، وہ تو کھیلا گیا… اس پر اب کف افسوس ملنے کے لئے بھی کافی دیر ہو چکی ہے۔ ورنہ الحمد للہ، ’’سب میں‘‘… اور ’’سب سے‘‘ اچھی زندگی گزار رہا ہوں۔
خیر…! عرض یہ کر رہا تھا کہ جب عشق اقبال میں فلسفے و کلام کے گدلے پانیوں میں بے خطر کود پڑا، تو منکشف ہوا کہ یہ دادا جان کی خیرات کا چاول نہیں، جس سے آپ بن بلائے مہمان کی طرح استفادہ فرما سکتے ہیں۔ ایک ایک لفظ اور ایک ایک ترکیب کی اپنی کئی کئی معنی ہیں۔ یہی نہیں، ایک جملے میں ’’ایک‘‘ ہی لفظ اگر چار دفعہ استعمال ہوا ہے، تو اپنے الگ الگ معنوں میں۔ صاحب تحریر معاملے کو آپ کے لئے جتنی ممکنہ حد تک الجھا سکتا ہے وہ اس کی ’’کامیابی‘‘… اور علمی وجاہت کی نشانی ہے۔ رہے آپ…! تو بھاڑ میں جائیں آپ…!
اسی طرح کا ایک عقدہ کھل نہیں رہا تھا۔ مشہور مسئلہ ’’خلق القرآن‘‘ میں مغزلہ، محدیثین اور پھر اشاعرہ کے مناقشوں کو لفظ پڑھا۔ مگر کسی بھی مصنف نے نفس مسئلہ کے اس بنیادی سوال کو اہمیت نہیں دی تھی، کہ قرآن کو ’’مخلوق‘‘ ماننے میں محدیثین اکابر کو کیوں تامل تھا، اور خود مغزلہ کو منوانے پر اصرار کیوں تھا۔ آسان الفاظ میں میرا سوال یہ تھا، کہ ہر دونوں صورتوں میں ہر فریق کے خیال میں واقع ہونے والا عقیدے یا ایمان کا وہ ’’فساد‘‘ کیا تھا؟ جس سے وہ بچنا چاہتے تھے… اور جس کی وجہ سے ہر فریق کو اپنے اپنے موقف پر اصرار تھا۔ پریشانی کی حالت میں دوچار کتابیں بیک وقت میری لائبریری کی چھوٹی مگر لمبی میز پر میرے سامنے کھلی تھیں، اور ہر ایک میں عین وہی صفحات اس بحث کی خاطر بار بار الٹ پلٹ کررہا تھا۔ اچانک خیال آیا کہ یہ تو حضرت مولانا کفایت اللہؒ کا پسندیدہ موضوع ہے، ان کی طرف رجوع کیوں نہ کیا جائے۔ یہ خیال آتے ہی منٹوں میں کتابیں لپیٹ کر لائبریری بند کرکے نماز عصر سے کچھ پہلے ہی مسجد کی طرف دوڑ پڑا۔ نماز کے دوران ہی اپنے سوال کے لئے موزون الفاظ کی تلاش میں تھا، مگر سمجھ نہ سکا کہ کیسے اپنا سوال حضرت کے سامنے پیش کروں۔ نماز کے بعد باقی لوگ رخصت ہوئے تو میں نے حضرت کو روک لیا۔ ابھی میری زبان سے سوال کے دو الفاظ ہی نکلے تھے کہ فرمانے لگے:
’’فاروق…! تعدد د قدماو واقع کیگی‘‘۔
قدما کا تعدد واقع ہوتا ہے… یعنی آپ کو ایک قدیم ذات (خدا) کے بجائے کئی قدیم چیزیں ماننا پڑتی ہیں۔
’’باس… بس… حضرت سمجھ گیا۔‘‘
انہوں نے اپنا جملہ جاری رکھا…
’’تعدد قدماو ثلاثہ چہ پہ عقیدہ د
عیسائیت کے واقع شو نو عیسایان پہ
کافر شو۔ تعدد د قدماو سبعہ ؤچہ
واقعہ شی پہ عقیدہ د توحید کے نو
مسلمانان بہ پہ بہ درجہ اتم کا فرشی…‘‘
’’جب عیسائیوں نے تین قدیم چیزیں مان لیں تو وہ اس پر کافر ہوگئے… اگر ہم مسلمان سات چیزیں (صفات خداوندی) قدیم مان لیں، تو بدرجہ اتم کافر ہوجائیں گے‘‘
’’مطلب یہ ہے کہ قرآن جو صفت الہی ہے، اگر اسے اور دوسری تمام صفات باری تعالیٰ کو… جو سات ہیں… ’’قدیم‘‘ مانا جائے، تو جو اعتراض عیسائیت پر تین (خدا، روح، کلام) کو قدیم ماننے کے نتیجے میں بشکل شرک وارد ہوا، وہی اعتراض سات کو قدیم ماننے کے نتیجے میں عقیدۂ توحید پر بہ درجہ اتم وارد ہوگا‘‘۔
دوستو…! یہ عام دلچسپی کا موضوع نہیں کہ میں آپ کا وقت اس پر ضائع کروں مگر اتنا عرض کروں کہ مہینوں کے غور و خوص اور محنت و مشقت کے باوجود جس الجھن کا کوئی حل… کسی بھی متعلقہ کتاب میں عنقا تھا، وہ حضرت نے آن واحد میں سلجھا دیا۔
عشق کی اک جست نے طے کردیا قصہ تمام
میں اس بحث کو لپیٹتے ہوئے، خلاصے کے طور پر عرض کروں، کہ حضرت کے ساتھ میری رفاقت، ان کی مجھ پر عنایتیں اور میری بہت ساری علمی و سماجی الجھنوں میں حضرت نے جو کردار ادا فرمایا، اس کا صلہ کا وہ رب ہی انہیں دے سکتا ہے، جو عرصہ ہوا ہم سے جدا ہوکر جس کے پاس وہ پہنچ چکے ہیں۔ میں اس گواہی کے ساتھ ان کے تعارف کی ان چند سطور سے رخصت ہورہا ہوں، کہ علوم دینیہ اور مشرقی علوم میں فکر و فلسفہ، کلام ادب اور کم از کم دو عظیم زبانوں، یعنی فارسی و عربی شاعری میں حضرت کا مقام ایک الہامی اور معجزانہ صفات کا حامل تھا۔ اللہ کی روح و خاک دونوں کو آسودگی بخش دے۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More