موسم سرما کے باعث کشمیر میں پانی کے چشمے جمنے لگے ہیں اور آبشاروں میں بھی پہلے جیسی روانی نہیں رہی۔ پہاڑی ندیاں بھی رک رک کر بہتی ہیں۔ مگر کشمیر کے حریت پسند عوام کی رگوں میں دوڑتا ہوا گرم لہو ہر موسم سے ماورا ہے۔
گوریلا جنگ کے ماہر کہتے ہیں: ’’مذکورہ جنگ کا اہم مورچہ اور خطرناک ہتھیار ہوتا ہے‘‘ مگر مزاحمت کا کوئی موسم نہیں ہوتا۔
مزاحمت بذات خود ایک موسم ہوتا ہے۔ ایسا موسم جب بدن کی شاخ پر زخموں کے پھول کھلتے ہیں۔ مزاحمت کا وہ موسم، اپنے سرکش حسن کے ساتھ کوندتی ہوئی بجلی کی طرح رقصاں ہے اس وادی میں جہاں سوچنا تو کیا وہ سانس لینا بھی جرم ہے، جو بغاوت سے بھرے ہوئے سینے سے گزرتی ہے۔
کشمیر میں صرف سوچنا، سمجھا، سچ اور حق کا اظہار کرنے کے لئے لب کھولنا ہی نہیں، بلکہ ظلم اور بربریت کو دیکھنا بھی ناقابل معافی جرم ہے۔
اگر آپ نے بی بی سی پر حبا نثار کی تصویر دیکھی ہے تو آپ اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں، جس حقیقت کو وکٹر سرگی نامی باغی ادیب نے ’’کامریڈ تلیائیف‘‘ نامی ناول میں پوری شدت سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ناول میں کامریڈ وکٹر سرگی کا کردار خود پر چلنے والے مقدمے کے دوران مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا ہوکر مقدمہ چلانے والے جج سے مخطاب ہوکر کہتا ہے کہ ’’ہماری آنکھیں آئینے ہیں۔ تم ان آئینوں کو توڑنا چاہتے ہو۔ کیوں کہ ان آئینوں میں تم اپنا عکس دیکھ رہے ہو۔ ان آئینوں میں تم اپنے آپ پر فتوے صادر کرتے نظر آتے ہو۔ تم آئینوں سے ڈرتے ہو۔‘‘
بھارت بھی کشمیر میں ان آنکھوں کے آئینوں کو توڑنا چاہتا ہے، جن آنکھوں کے آئینوں میں اسے اپنی حقیقی تصویر نظر آ رہی ہے۔ وہ آئینے بھارت کی نام نہاد لبرل، سیکولر اور جمہوری نظام پر لٹکتے ترنگے کے پردے کے پیچھے اس مکار اور سفاک ریاست کی حقیقت پیش کرتے ہیں، جو ہندو شاؤنسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ فاشسٹ بھی ہے۔ جب مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج کے افسران مزاحمت کرنے والے کشمیریوں کی خوبصورت اور اجلی آنکھیں دیکھتے ہیں تو ان افسران کو اپنے مکروہ چہرے نظر آتے ہیں۔ اس وقت وہ غصے پر قابو نہیں رکھ سکتے۔ اس لیے وہ اپنے سپاہیوں کو حکم دیتے ہیں کہ ’’آنسو گیس کے شیل مت چلاؤ۔ پیلٹ گن سے ان آنکھوں کو شوٹ کرو۔‘‘ اس طرح کشمیر کے نوجوان اور بوڑھوں کی تو کیا، اس وادی کے بچوں کی آنکھوں کے آئینے بھی چکناچور ہو رہے ہیں۔ معصوم بچوں کی آنکھوں کے آئینے کس طرح توڑے جاتے ہیں؟ اس سوال کا جواب اور ثبوت وہ دو برس کی کشمیری بچی ہے، جس کا نام حبا ہے۔
حبا نثار! میٹھے اور خوبصورت نام والی یہ دو برس کی بچی اس وقت اپنے گھر کے آنگن میں کھیل رہی تھی، جب آسمان سے چھروں کی بارش ہونے لگی۔ حبا نے اپنا سر اوپر اٹھایا اور بھارتی فوج کے ہاتھوں چلائے ہوئے بندوق کے چھرے حبا کی معصوم آنکھوں میں پیوست ہوگئے۔ کشمیر سے رپورٹ کرنے والے صحافی بتاتے ہیں کہ حبا کی ایک آنکھ کا آپریشن ہو چکا ہے۔ اب اس کی دوسری آنکھ کا آپریشن ہوگا۔ دو برس کی ننھی بچی جب بڑی ہوگی، تب کیا وہ اپنی وادی میں کھلتے ہوئے پھولوں اور ان پر اڑتی ہوئی تتلیوں کو دیکھ سکے گی؟ اس سوال کا پورے وثوق سے جواب تو ڈاکٹر اور سرجن بھی نہیں دے سکتے۔ ممکن ہے کہ دیکھ پائے اور ممکن ہے کہ وہ بھی وادی کشمیر کی اس بچی جیسی ہو جائے، جو دسویں کلاس کی طالبہ تھی۔ جس نے اپنے گھر کا
دروازہ کھولا تو پیلٹ گن کے چھرے اس کی آنکھوں میں داخل ہوگئے۔ جس دن شہید آنکھوں والی شب روزہ کا پہلا پیپر تھا، اس دن وہ امتحانی ہال کے بجائے اسپتال کے آپریشن تھیٹر میں تھی اور آپریشن کے بعد بھی اس کی آنکھوں کی روشنی واپس نہ آئی۔ وہ نوجوان لڑکی جس نے اپنے روشن مستقبل کے خواب دیکھے تھے، وہ اب بغیر سہارے کے نہیں چل سکتی۔
کیا کشمیر میں ہونے والے اس ظلم کی کہانیاں انگریزی میں شائع نہیں ہوتیں؟ کیا جرم کے یہ گھنائونے واقعات فرنچ، اسپینش اور جرمن زبانوں میں رپورٹ نہیں ہوتے؟ کیا وہ وحشت بھرے واقعات نیلی اور سبز آنکھوں والے مغربی لوگوں کی نظر سے نہیں گزرتے؟ اگر گزرتے ہیں اور یقینی طور پر گزرتے ہیں تو پھر مغرب کا ضمیر بیدار کیوں نہیں ہوتا؟ وہ بھارت کی اس بربریت کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتے؟ وہ کیوں نہیں کہتے کہ ’’کشمیر پر بھارتی ظلم اکیسویں صدی کے گال پر زوردار تھپڑ ہے۔‘‘
کاش! کشمیر میں ہونے والے ظلم پر مغرب کو وہ سارے الفاظ یاد آئیں، جو شعور کی بیداری کے دور سے لے کر اب تک مغرب کی ساری زبانوں میں چراغوں کی طرح جلتے ہیں۔ بغاوت کے وہ روشن چراغ کشمیر کی ان فضاؤں کے لیے کیوں نہیں ہیں؟ جہاں صرف راتیں ہی نہیں، بلکہ دن بھی تاریک ہیں۔ کیا مغرب کی آنکھ تب کھلے گی جب کشمیر کے احتجاجی لوگ موسم سرما کے چمکتے ہوئے دن کے دوران لالٹین جلا کر سڑکوں پر آئیں گے اور پورے زور سے صدا لگائیں گے: ’’انصاف کی روشنی کہاں ہے؟‘‘
یوگوسلاویا کے باغی سیاستدان اور ادیب ملون دی جلاس نے گزشتہ صدی کے پانچویں عشرے کے دوران اپنی زندگی کی جو کہانی لکھی تھی، اس کتاب کو اس نے ’’Land Without Justice‘‘ کے نام سے شائع کیا تھا۔ ’’لینڈ وتھ آؤٹ جسٹس‘‘ کا مطلب ہے ’’انصاف سے عاری سرزمین‘‘ کشمیر بھی انصاف سے عاری سرزمین کا نام ہے۔ اس سرزمین کے ہر مرد اور ہر عورت، ہر بچے اور ہر بچی کی زندگی کی کہانی کا عنوان بھی یہی ہونا چاہئے کہ ’’انصاف سے عاری سرزمین‘‘ اس زمین پر سب کچھ ہے۔ کھیت ہیں۔ کھلیان ہیں۔ پہاڑ ہیں۔ میدان ہیں۔ سورج، چاند اور تارے ہیں۔ چشموں پر چمکنے والے روشنی کے جگنو ہیں۔ پرندے اور تتلیاں ہیں۔ مگر انصاف نہیں تو کچھ نہیں! سوائے اندھیرے کے!!
کشمیر سورج کے تلے ایک اندھیرے دنوں کی داستان ہے اور یہ کوئی ادبی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ یہ سادہ سا سچ ہے۔ کیوں کہ جو آنکھ نہیں دیکھ سکتی، اس آنکھ کے لیے کیا دن اور کیا رات؟ بھارت نے ہزاروں کشمیریوں کی آنکھوں کی روشنی چھین لی ہے۔ اب ان کے خوبصورت
.چہروں پر دو جھرونکوں جیسی آنکھیں تو ہیں، مگر وہ جھروکے روشن نہیں۔
کبھی وہ آنکھیں روشن، زندہ اور تابندہ آئینے تھیں۔ اب وہ آئینے چکناچور ہو چکے ہیں۔ کشمیر کی دھرتی پر کسی پتھر کی ٹھوکر کھا کر گر جانے والی مظلوم نابینوں سے کبھی کوئی پوچھتا بھی ہے کہ کیا کر رہے ہو؟ تو وہ کہنا چاہتے ہیں کہ اپنے ریزہ ریزہ خواب چن رہا ہوں!
کشمیر مقتول خوابوں کی خون بہاتی ہوئی کہانی ہے۔ نہیں۔ کشمیر کہانی نہیں ہے۔ کشمیر داستان ہے۔ وہ داستان جو درد کا سمندر ہوتی ہے۔ وہ سمندر جس میں دکھوں کی بہت ساری ندیاں رخساروں سے ڈھلکتے ہوئے آنسوؤں کی لکیروں کی طرح سرکتی سرکتی سمندر کے ہونٹوں میں جذب ہو جاتی ہیں۔ کشمیر درد کا سمندر ہے۔ درد کا وہ سمندر جس میں آج بھی کشمیر کے بیٹے ہیمنگوے کے مشہور کردار سنتیاگو کی طرح مسلسل بندوقوں کے چپو چلا رہے ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ وہ آزادی کے ساحل پر پہنچ جائیں گے۔
کشمیر کبھی بھی ہار نہ ماننے والا دل ہے۔ وہ دل جو درد کے زخموں سے چور ہے۔ وہ دل جس میں جدائی کے بہت داغ ہیں۔ مگر وہ دل پھر بھی لہو کی مست چال پر رقصاں ہے۔
تو میں کالم کی ابتدا میں تذکرہ کر رہا تھا ان چشموں کا، ان آبشاروں کا اور ان پہاڑی ندیوں کا، جو موسم سرما کی وجہ سے اپنی پرانی روانی برقرار رکھنے سے مجبور ہیں۔ مگر اس موسم میں اس خون کی گرمی اور گردش ویسی ہی ہے، جیسی موسم گرما کے دنوں میں ہوتی ہے۔ کیوں کہ مزاحمت موسم سے ماورا حقیقت کا نام ہے۔
اگر مزاحمت میں اس قدر سرکشی نہ ہوتی تو وہ قطار کب کی ختم ہو چکی ہوتی، جس قطار میں کشمیر پر سر قربان کرنے والے مجاہد کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بھارتی فوجیوں کی بندوقیں مسلسل چل رہی ہیں۔ مگر کشمیر پر قربان ہونے کے لیے تیار حریت پسندوں کی قطار چھوٹی ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتی اور بڑی ہوتی جا رہی ہے۔ اس قطار کی عجیب قسمت ہے۔ جب اس قطار میں کھڑے چند افراد قتل کیے جاتے ہیں تو ان کی جگہ بھرنے کے لیے بہت سارے کشمیری بڑھ آتے ہیں۔ اس طرح وہ قطار چھوٹی ہونے کے بجائے بڑی ہوتی جاتی ہے۔
دنیا صرف یہ دیکھتی ہے کہ کشمیر میں کتنے حریت پسند کم ہوئے، مگر دنیا کی دید یہ نہیں دیکھ رہی کہ کم ہونے والوں کی جگہ بھرنے کے لیے جو لوگ مزاحمت کرنے والی قطار میں اپنا باغی کردار ادا کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں، ان کی تعداد شہید ہونے والوں سے ہمیشہ زیادہ رہی ہے۔
ہفتہ کے روز بھی ایسا ہی ہوا۔ کشمیرکے علاقے پلوامہ میں جب بھارتی فوج کی بندوقوں نے تین حریت پسندوں سے حیات کا حق چھین لیا تو ان کی جگہ بھرنے کے لیے احتجاجی نوجوان آگے آئے اور اسی دن اور اسی مقام پر نو نہتے کشمیریوں کے لاشے تڑپتے ہوئے نظر آئے۔ مگر اس بہتے ہوئے خون سے کتنے کشمیری حریت پسند جنم لیں گے؟ بھارت کو اس بات کی نہ عقل ہے، نہ احساس!
اگر بھارت کے سر میں سرکشی کے علاوہ سمجھ کی کوئی پتلی سی ریکھا بھی ہوتی تو وہ اب تک سمجھ جاتا کہ وہ کشمیر میں ایک ہارتی ہوئی جنگ لڑنے کے سوا اور کچھ نہیں کر رہا۔
بھارت کو یہ بات ایک دن سمجھ میں آجائے گی کہ بے انصافی کی وجہ سے حکومتیں تو کیا، ممالک کا وجود بھی باقی نہیں رہ سکتا۔
بھارت کو یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ کشمیر کی دھرتی کو بے انصافی سے بھر کر اس نے بہت برا کیا تھا، مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوگی!! ٭
Next Post