بھارت کا اصل چہرہ

0

مسعود ابدالی
[email protected]

بھارتی فورسز نے ہفتہ کے روز مقبوضہ کشمیر میں گیارہ بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ہفتہ کی صبح ہندوستانی فوج ضلع پلوامہ کے گائوں سرنو پر چڑھ دوڑی۔ ان کا کہنا تھا کہ گائوں میں حزب المجاہدین کے گوریلے چھپے ہوئے ہیں۔ گھر گھر تلاشی کے دوران خواتین سے بدسلوکی کے مرتکب ایک فوجی کو لوگوں نے پکڑ لیا اور مار پیٹ سے وہ وحشی شدید زخمی ہو گیا۔ اس واقعہ پر مشتعل لوگ نعرے لگاتے سڑک پر آگئے۔ ہندوستانی فوج نے تنبیہ کے بغیر ہجوم پر فائرنگ کر دی۔ ضلعی اسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ شہدا میں ایک 14 سالہ بچہ عاقب احمد بھی شامل ہے۔ تمام شہدا کے ماتھے اور سینوں پر گولیاں لگی ہیں۔ وحشیانہ کارروائی میں بے شمار افراد زخمی بھی ہوئے۔
ہندوستانی فوج تین نوجوانوں کی لاشیں اپنے ساتھ لے گئی، جنہیں ظہور احمد ٹھوکر، عدنان حمید بٹ اور بلال احمد ماگرے کے نام سے شناخت کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ یہ لوگ حزب المجاہدین کے سپاہی تھے۔ تاہم گائوں کے لوگوں کو کہنا ہے کہ مظاہرے میں کوئی بھی جنگجو شامل نہیں تھا اور یہ احتجاج گھروں کی تلاشی کے دوران خواتین سے بدسلوکی پر شروع ہوا تھا۔ ہندوستانی فوج کے ایک اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ مظاہرین کے تشدد کا شکار بھارتی فوجی بھی دَم توڑ گیا۔
بھارتی فوج عرصہ دراز سے کشمیر پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں یہ سلسلہ بہت تیز ہوگیا ہے۔ مگر اس کے باوجود انسانی حقوق کے چیمپئن مغرب کی کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ جس کی وجہ سوائے مسلم دشمنی کے کچھ نہیں۔ مسلم دشمنی میں مغرب نے گاندھی کو بھی عالم انسانیت کا رہنما بنا دیا ہے۔ بالی ووڈ نے فلموں کے ذریعے انہیں اور سر چڑھایا اور اب ادھر کچھ برسوں سے ہندوستانی حکومت دنیا کے بڑے شہروں میں گاندھی کے مجسمے نصب کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔
ہندوستان نے کروڑوں ڈالر کی ترغیب کاری (Lobbying) کے زور پر گھانا کی حکومت کو گاندھی کا مجسمہ نصب کرنے پر راضی کرلیا۔ دو سال قبل ہندوستان کے سابق صدر پرتاب مکھرجی نے دارالحکومت عکرہ میں جامعہ گھانا کے صدر دروازے پر گاندھی کا ایک قد آدم مجسمے کی رونمائی کی۔ اس موقعے پر گاندھی کے قصیدے پڑھے گئے اور نسلی و مذہبی تعصب کے خاتمے کیلئے ان کی ’’خدمات‘‘ پر روشنی ڈالی گئی۔
تاہم جامعہ کے اساتذہ اور دانشوروں کو سیاہ فام لوگوں کے خلاف گاندھی جی کے حقارت آمیز خیالات پر شدید تشویش تھی۔ سیاسی جدوجہد کے دوران انگریزوں کی خوشنودی کیلئے گاندھی جی نے افریقیوں کے خلاف توہین آمیز تبصرے کئے تھے، جس کا مقصد فرانسیسیوں، پرتگالیوں، اطالویوں اور انگریزوں کو خوش کرنا تھا۔ اس زمانے میں افریقی حریت پسند ان قبضہ گروپوں کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے۔
جامعہ گھانا کی سینیٹ اور اساتذہ کی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی، جس میں گاندھی کی تقریروں کے اقتباسات نقل کئے گئے تھے، جس میں انہوں نے ’’ہندوستانیوں کو افریقیوں سے کہیں زیادہ برترقرار دیا تھا‘‘ بلاشبہ یہ ایک قابل مذمت نسل پرست تبصرہ تھا، جس پر طلبہ مشتعل ہوگئے اور یونین نے دھمکی دی کہ اگر مجسمہ نہ ہٹایا گیا تو اسے مسمار کردیا جائے گا۔ چنانچہ دو دن پہلے یہ مجسمہ توڑ کر گرا دیا گیا۔
مبالغہ آرائی اور سفید جھوٹ
مرزا غالب نے دوست کی تعریف کرتے ہوئے کہا
تھا کہ
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا
امریکیوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ واشنگٹن دوستوں کو بالکل احمق سمجھتا ہے اور ان کے اہلکار وقتاً فوقتاً ایسے تبصرے کر جاتے ہیں جو آگ لگا دینے والے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ دنوں امریکی محکمہ خزانہ کے انڈر سیکریٹری برائے بین الاقوامی امور ڈیوڈ ملپاس نے فرمایا کہ امریکہ پاکستان کو معاشی طور پر ایک ناکام ریاست کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتا اور ساتھ ہی بقراطی بھی جھاڑ دی کہ ناکامی سے بچنے کے لیے پاکستان کو اپنا اقتصادی پروگرام تبدیل کرنا ہوگا۔
معلوم نہیں اس غیر ضروری تشویش کی شانِ نزول کیا ہے کہ Moody اور اقتصادیات پر نظر رکھنے والے کئی عالمی ادارے کہہ چکے ہیں کہ سخت حالات کے باوجود پاکستان قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت رکھتا ہے اور مستقبل قریب میں ریاست کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں۔
یہ شوشہ چند ماہ پہلے صدر ٹرمپ نے چھوڑا تھا کہ پاکستان چین سے حاصل کئے گئے قرضوں کی ادائیگی کیلئے عالمی مالیاتی فنڈ سے قرض حاصل کر رہا ہے۔ امریکی صدر مبالغہ آرائی و غیر حقیقی بیانات بلکہ سفید جھوٹ کے عادی ہیں اور اس کی شہادت خود ان کے ایک سابق وکیل نے عدالت کے روبرو بیان حلفی میں دی ہے۔ پاکستان پر چینی قرضہ اور آئی ایم ایف پیکیج کی بتی کے پیچھے انہوں نے ساری امریکی انتطامیہ کو لگا دیا ہے۔
62 سالہ ڈیوڈ ملپاس ایک جہاندیدہ آدمی ہیں اور ان کا مطالعہ بہت گہرا ہے۔ موصوف کو انگریزی کے علاوہ
ہسپانوی، فرانسیسی اور روسی زبان پر مکمل عبور ہے اور پڑھنے و بولنے کی حد تک وہ چینی زبان بھی جانتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ملپاس صاحب چینی ٹیلی ویژن بہت باقاعدگی سے دیکھتے ہیں۔ چینی ابلاغ عامہ سے ان کو یہ تو یقیناً معلوم ہوگیا ہوگا کہ پاکستان کو دیا جانے والا چینی قرضہ کئی برسوں تک واجب الادا نہیں، جبکہ آئی ایم ایف کے قرضوں کی واپسی بہت ہی کم مدت میں ضروری ہے اور شاید پہلی قسط چھ ماہ میں واجب الادا ہوگی۔ اس کا مطلب ہوا کہ چینی قرضوں کی پہلی قسط کی تاریخ آنے سے پہلے ہی آئی ایم ایف کے قرضے کا بڑا حصہ بے باق ہو چکا ہوگا۔
لیکن ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے خارجہ امور کی سماعت کے دوران کانگریس کے رہنما مسٹر ملپاس سے مسلسل یہ پوچھتے رہے کہ ’’امریکی انتظامیہ اس بات کو کیسے یقینی بنائے گی کہ پاکستان آئی ایم ایف سے ملنے والے پیکیج سے چینی قرضہ ادا نہیں کرے گا۔‘‘
معنی خیز بات یہ ہے کہ جناب ملپاس نے ارکان کو دلیل سے مطمئن کرنے کے بجائے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ وہ پوری کوشش کریں گے کہ ایسا نہ ہو اور جب ان پر سوالات کا دبائو بڑھا تو انہوں نے حکومت پاکستان کو معیشت بہتر کرنے کیلئے اقتصادی پروگرام تبدیل کرنے کا مشورہ دے ڈالا۔ سوال یہ ہے کہ جب ملک کا معاشی پروگرام عالمی مالیاتی اداروں کے خیال میں درست ہے تو اسے کاہے کو تبدیل کیا جائے۔ ملپاس صاحب طبعیات (Physics) کے طالب علم رہ چکے ہیں اور انہوں نے یہ تو ضرور سنا ہوگا کہ:
don’t fix it If isn’t broke

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More