لیفٹیننٹ کرنل (ر) عادل اختر
جب سال جاتا ہے تو 16 دسمبر آتا ہے اور خون کے آنسو رلا کے جاتا ہے۔ بیسیویں صدی کے پہلے نصف میں برصغیر کے مسلمان لیڈروں نے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن کا خواب دیکھا اور محمد علی جناحؒ نے اس خواب کی صورتگری کردی۔ 14 اگست 47ء کو برصغیر کے مسلمانوں کو دولت عظیم ملی، لیکن 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان ٹوٹ گیا۔ آج تک دانشور وجہ تلاش کررہے ہیں، سب سے بڑی وجہ اخلاقی کمزوری تھی۔ خود غرضی، نفسانفسی، لوٹ مار، جہالت۔ یہ راقم 16دسمبر 71ء کے دن ڈھاکہ کے میدان جنگ میںکھڑا خون کے آنسو رو رہا تھا۔ آج تک آنسو بہتے ہیں۔
جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شام فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں
پاکستان میں لاکھوں ایکڑ زمین ہے، دریا ہیں، پہاڑ ہیں، سونے چاندی کی کانیں ہیں، اگر نہیں ہیں تو پڑھے لکھے، صحت مند اور باشعور عوام نہیں ہیں۔ آج یہ راقم دریا کو الٹا بہانے کی کوشش کر رہا ہے۔ حالانکہ تاریخ کا پہیہ الٹا نہیں چل سکتا۔
درست بات تو یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان ایک آزاد، خودمختار ملک چلانے کے اہل نہ تھے۔ اگر پچیس، تیس سال تک تمام اہم عہدوں پر انگریزوں کو رکھا جاتا اور مسلمان حاکم، دانشور اور افسران ان کے ماتحت کام سیکھتے اور ان سے سیکھتے کہ حکومت کیسے چلائی جاتی ہے تو پاکستان کو بہت سارے مسائل اور مصائب جو پیش آئے، وہ نہ آئے ہوتے۔ پاکستان بنتے ہی آپا دھاپی اور لوٹ مار شروع ہوگئی، جو لوگ چھوٹے چھوٹے کام نہیں جانتے تھے وہ بڑے بڑے عہدوں پر جا بیٹھے۔
انتقال آبادی کے نام پر لاکھوں لوگوں کو جان سے مار دیا گیا۔ اگر انتقال آزادی آہستہ آہستہ اور منظم انداز میں ہوتا تو شاید لاکھوں لوگ نہ مارے جاتے، بڑے بڑے سانحات نہ ہوتے، چناب خون سے نہ بھرتی۔ کشمیر کا مسئلہ نہ پیدا ہوتا، لاکھوں کشمیری نہ مارے جاتے، ظلم وستم
نہ ہوتا اور 71ء کا سانحہ نہ ہوا ہوتا۔ یہ سانحہ برصغیر کے عوام اور لیڈروں کے بے ضمیری، خود غرضی، چالاکی اور بے حیائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لاکھوں ہم وطن اپنے ہی ہم وطنوں کو کھا گئے۔ سکندر مرزا میں اگر وژن ہوتا تو وہ خون کی ندیاں اور آگ کے الاؤ چشم تصور سے دیکھ لیتا۔ پاکستان بنانے میں بنگالیوں کا حصہ سب سے زیادہ تھا اور توڑنے میں بھی پیش پیش تھے۔ جو سانحہ عظیم دسمبر 1971ء کو روپذیر ہوا، اس کی بنیاد 7 اکتوبر 1958ء کے دن اس وقت کے صدر سکندر مرزا نے رکھی تھی۔ سکندر مرزا نے آئین پاکستان منسوخ کر کے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا۔ آئین کسی ملک کو متحد رکھنے کی سب سے بڑی ضمانت ہوتا ہے۔ اگر آئین نہ رہا تو ملک کیسے سلامت رہتا۔ بارہ سال تک چنگاریوں کو قالین کے نیچے چھپایا گیا، لیکن چنگاریاں شعلوں میں بدل گئیں۔ پورا چمن جل کر خاکستر ہوگیا۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ایک بڑے شرمناک باب کا اضافہ ہوگیا۔ اس عظیم سانحے کی ذمہ داری چار لیڈروں پر عائد ہوتی ہے۔ مجیب الرحمان، اندرا گاندھی، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل یحییٰ خان۔ اگر چاروں لیڈر چاہتے تو مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہو سکتا تھا۔ لاکھوں افراد نہ مارے جاتے، خون کی ندیاں نہ بہتیں۔ اس مسئلے پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔ دنیا کی کوئی عدالت ان چاروں لیڈروں پر مقدمہ نہیں چلا سکتی تھی، مگر ایک عدالت اوپر بھی ہے۔ اس عدالت نے ان چاروں کو سزا دی، اسے Poetic Justice کہا جاتا ہے، اس سزا کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہوسکتی۔
اندرا گاندھی کو ایک اور سزا ملی۔ پاکستان بجائے کمزور ہونے کے مضبوط ہوتا گیا اور 1998ء میں ایک ایٹمی طاقت بن گیا۔ بھارت نے کئی بار پاکستان پر لشکر کشی کر کے اسے ختم کرنے کی کوشش کی، مگر بھارت کی سب کوششیں ناکام رہیں۔ اندرا گاندھی کی اگر کوئی روح ہے تو اس پاکستان کو دیکھ کر بے قرار ہوتی ہوگی۔ پاکستان دہلی کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہوگا۔ اب بھی اس ملک نے دہلی کے حکمرانوں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے۔ پاکستان میں ترقی کرنے کے بہت امکانات ہیں۔ 2018ء میں پاکستان قوم نے انگڑائی لی ہے۔ پاکستان اپنے مسائل کو حل کرسکتا ہے، لیکن بھارت اپنے مسائل کو حل نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں کرپشن، پانی کا بحران، بڑھتی ہوئی آبادی، تعلیمی انحطاط، اخلاقی زوال اور دوسری کئی بیماریوں کے خلاف کوشش شروع ہوگئی ہے۔ اگر پاکستان اگلے پانچ سال میں اپنے آدھے مسائل حل کر لیتا ہے کو بڑی کامیابی ہوگی۔
پاکستان کے مسائل کا مستقل حل یہ ہے کہ الیکشن قوانین بدلے جائیں۔ یہ ممکن بنایا جائے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، دانشور اور دیانتدار حضرات الیکشن میں حصہ لے سکیں۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں وڈیرے، جاگیردار، پیر، ڈاکو، لٹیرے جگہ نہ پا سکیں۔ ایسا ہوگیا تو پاکستان اس علاقہ کا جاپان بن سکتا ہے۔ پاکستان کے نہیں، بھارت کے دانشور افسوس کیا کریں گے کہ کاش ہم نے 1971ء میں پاکستان کو نہ توڑا ہوتا۔
(باقی صفحہ5بقیہ نمبر7)