معارف القرآن

0

معارف ومسائل
صحابہ کرامؓ کا مقام قرآن و حدیث سے پہچانا جاتا ہے تاریخ سے نہیں:
خلاصہ یہ ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ عام امت کی طرح نہیں، وہ رسول اقدسؐ اور امت کے درمیان خدا تعالیٰ کا بنایا ہوا ایک واسطہ ہیں، ان کے بغیر نہ امت کو قرآن پہنچنے کا کوئی راستہ ہے اور نہ معانی قرآن اور تعلیمات رسولؐ کا، اس لئے اسلام میں ان کا ایک خاص مقام ہے، ان کے مقامات کتب تاریخ کی رطب و یابس روایات سے نہیں پہچانے جاتے، بلکہ قرآن و سنت کے ذریعہ پہچانے جاتے ہیں۔
ان میں سے اگر کسی سے کوئی لغزش اور غلطی بھی ہوتی ہے تو اکثر وہ اجتہادی خطا ہوتی ہے، جس پر کوئی گناہ نہیں، بلکہ حسب تصریح احادیث صحیحہ ایک اجر ہی ملتا ہے اور اگر فی الواقع کوئی گناہ ہی ہوگیا تو اول وہ ان کے عمر بھر کے اعمال حسنہ اور رسول اکرمؐ اور اسلام کی نصرت و خدمت کے مقابلے میں صفر کی حیثیت رکھتا ہے، پھر ان میں خشیت اور خوف خدا کا یہ عالم تھا کہ معمولی سے گناہ سے بھی لرز جاتے اور فوراً توبہ کرتے اور اپنے نفس پر اس کی سزا جاری کرنے کے لئے کوشش کرتے تھے، کوئی اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دیتا اور جب تک توبہ قبول ہو جانے کا یقین نہ ہو جائے بندھا کھڑا رہتا تھا اور پھر ان میں سے ہر ایک کی حسنات اتنی ہیں کہ وہ خود گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہیں، ان سب پر مزید یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے ان کی خطاؤں کی مغفرت کا عام اعلان اس آیت میں اور دوسری آیات میں فرما دیا اور صرف مغفرت ہی نہیں بلکہ اپنی رضا کی بھی سند دیدی، اس لئے ان کے آپس میں جو اختلافات اور مشاجرات پیش آئے، ان کی وجہ سے ان میں سے کسی کو برا کہنا یا اس پر طعن و تشنیع کرنا قطعاً حرام اور رسول اکرمؐ کے ارشاد کے مطابق موجب لعنت اور اپنے ایمان کو خطرہ میں ڈالنا ہے۔
آج کل تاریخ کی جھوٹی سچی، قوی ضعیف روایات کی بناء پر جو بعض لوگوں نے بعض حضرات صحابہؓ کو مورد طعن و الزام بنایا ہے، اول تو اس کی بنیاد جو تاریخی روایات پر ہے، وہ بنیاد ہی متزلزل ہے اور اگر کسی درجہ میں ان روایات کو قابل التفات مان بھی لیا جائے تو قرآن و حدیث کے کھلے ہوئے ارشادات کے خلاف ان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی، وہ سب مغفور ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More