مہمانوں میں وہ انتہائی نورانی چہرے والے بزرگ، اس وقت کے دارالعلوم سوات کے متہم حضرت مولانا خان بہادرؒ مارتونگی کوہستانی تھے جو اپنے وقت کے جید عالم دین اور سلسلۂ قادریہ کے صاحب حال بزرگ تھے۔ آپ ’’مار تونگ بابا جیؒ‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ یہی بزرگ ہیں جن کے ساتھ میرے دادا جان کے تعلقات تھے اور جن کی عنایت سے ہمیں ہماری مسجد کے لئے حضرت مولانا کفایت اللہؒ عطا ہوئے تھے۔ آپ اوپر کی بحث میں ضمناً ان کا ذکر سن چکے ہیں۔ یہ اپنے وقت کے مشہور عالم، بزرگ، بیک وقت مصلح، سیاسی رہنما اور مجاہد، حضرت ولی احمدؒ المعروف ’’سنڈا کئی باباجی‘‘ کے مرید خاص، اور غالباً ان کے بعد اس سلسلے کے آخری بڑے بزرگ گزرے ہیں۔ یہ حضرت مار تونگؒ ہی اپنے مرشد حضرت سنڈا کیٔ باباجیؒ کے ساتھ گھوڑی پر سوار تھے۔ حضرت سرکاری دارالعلوم سوات کے اس وقت کے متہم تھے۔ ان کے چہیتے شاگرد مولانا کفایت اللہؒ اپنے دوسرے طلبا دوستوں کے ہمراہ، مارتونگ، ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ واپسی پر اگرچہ مارتونگ سے بذریعہ بس وہ آسانی سے منگورہ تشریف لے جاسکتے تھے۔ مگر مجھے آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ ان حضرات نے واپس منگورہ جانے کے لئے سڑک کے ذریعے سہولت سے جانے کے بجائے، پانچ چھ گھنٹے پیدل سفر کرکے پہلے ہمارے پاس گل بانڈئی اسپتال تشریف لانے اور پھر یہیں سے مزید چھ گھنٹے پیدل سفر کے ذریعے دیوانہ بابا تک جانے کی اس مشقت کو کیوں گوارا کیا۔ حالانکہ علماء حضرات عام طور پر اس قسم کی تکلیفوں کو گورا کرنے کے لئے فطرتاً موزوں یا آمادہ نہیں ہوا کرتے۔ پھر اس بات پر بھی مجھے حیرت ہی رہی کہ ان کی اس میزبانی کو خود ہمارے والدین اور اسپتال کے عملے کے علاوہ ہر خاص و عام نے ہمارے لئے انتہائی باعث سعادت کیوں قرار دیا۔
لیکن مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت مارتونگ بابا جیؒ کوئی معمولی شخصیت نہیں تھے۔ وہ اپنے وقت کے ایک جید عالم دین، بہت بڑے ولی اور ایک طرح سے اسلاف کے بزرگوں کا آخری نمونہ تھے۔ انہوں نے جن کو بھی اپنی دعاؤں سے نوازا، اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے اپنی برکتوں کے دروازے کھول دیئے۔ یہی مارتونگ بابا جیؒ تھے جو اپنے مرشد حضرت سنڈاکئی بابا جیؒ کے ساتھ پیچھے گھوڑی پر سوار تھے… اور جن کی کہانی آپ پچھلی قسط میں سن چکے ہیں۔
پہلے اس سے کہ حضرت مارتونگ بابا جیؒ کے مرشد عظیم، سنڈاکئی بابا جیؒ کے تعارف میں گفتگو کو آگے بڑھایا جائے، اور حسب وعدہ آپ کو ان کے اس بڑے اہم مشن کے بارے میں بتادیا جائے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ایک اور معاملے کی مناسب وضاحت کی جائے۔ دوران تحریر میرے ذہن میں خود بھی یہ بات تھی اور اس کے بعد قدر دان دوستوں نے یہ سوال اٹھا کر توجہ بھی دلائی کہ… آخر سنڈاکئی بابا جیؒ نے اس ظالم خان کا گھر اور مال و اسباب جلا کر اتنی سخت سزا کیوں دی؟ ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ بزرگوں کا مزاج تو عام طور پر غفو درگزر اور صلح و اصلاح کا ہوتا ہے۔ آخر یہاں پر ہم یہ رنگ اور یہ سختی کیوں دیکھتے ہیں؟ سوال بہت مناسب ہی نہیں، تشریح طلب بھی ہے۔ اگر ہم اس کا جواب اس مرحلے پر تلاش نہ کریں تو ممکن ہے، آگے ہمیں بابا جیؒ کے اس اہم مشن میں موجود حکمتوں کو سمجھنے میں دشواری ہوگی۔ لہٰذا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اس الجھن کو دور اور اس قضیئے کو صاف کیا جائے۔
باباجیؒ نے یہ اقدام، جیساکہ آپ جانتے ہیں اپر سوات گاؤں ’’گوا لیرئی‘‘ میں اٹھایا تھا۔ سوات کی زمین، اس کے باسیوں کی طبیعتوں اور رجحانات سے جب تک ہم واقفیت حاصل نہیں کرتے، ہم بابا جیؒ کے اس اقدام کی حقیقت کو نہیں جان سکتے۔ یہ اس سلسلۂ تحریر کا مشکل ترین مقام ہے، مگر دل پر پتھر رکھ کر بادل ناخواستہ مجھے اس زہر کا پیالہ ہونٹوں سے لگانا ہی پڑرہا ہے۔
سنڈا کئی باباجیؒ کا نام ولی احمد تھا۔ ان کو ’’سنڈاکئی بابا جی‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ آپؒ سلسلہ تصوف میں قادریہ شاخ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؒ کے مرشد حضرت شیخ نجم الدینؒ المعروف ’’ھڈے حاجی صاحب کابل‘‘ تھے۔ حضرت حاجیؒ ھڈے کابل کے مرشد حضرت عبدالغفورؒ المعروف اخون سوات جیلانیؒ سے ملے ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ سترہویں پشت میں حضرت جنید بغدادیؒ اور بالآخر بائیسویں پشت میں حضرت حسن بصریؒ سے جا ملتا ہے۔ باباجیؒ برٹش راج کے سرکاری ریکارڈ میں ’’سنڈاکئی ملا‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ وہی شخصیت ہیں، جن کو تحریک ریشمی رومال کے سلسلے میں اس وقت شمال مغربی سرحدی صوبے کے ہزارہ اور اپر سوات سے برٹش راج کے خلاف جہاد کے لیے مجاہدین کو تیار کرنے اور انہیں افغانستان تربیت کے لیے بھیجنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس کے بعد ان مجاہدین کے لیے تحریک کی جانب سے سلطنت عثمانیہ، ترکی سے اسلحہ کی فراہمی کا بندوبست کردیا گیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کی شروعات میں جب روس ایران جنگ میں ایران کا آذربائیجان کا علاقہ روس کے قبضے چلا گیا۔ اور ترکی سے براستہ ایران و افغانستان، اسلحہ کی ترسیل کا راستہ مسدود ہوا، تو باباجیؒ معہ تحریک ریشمی رومال کے دوسرے بزرگ سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اب کیا کرنا چاہیے؟
مجھے تقیم الحق کاکا خیل مرحوم نے زبانی طور پر بتایا تھا کہ حاجی صاحب ترنگ زئی، سنڈا کئی باباجیؒ اور اس لیول کے دوسرے بڑے اکابرین انگریز انٹیلیجنس اداروں کی سخت ترین نگرانی میں تھے۔ مجاہدین کی نقل و حمل، کابل میں حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ سے رابطے، افغانستان شاہی حکومت جو تخت کابل پر روز جھگڑوں میں ہمیشہ عدم استحکام کا شکار رہی، کو تحریک ریشمی رومال کے اکابر سے اپنے کیے گئے ’’وعدوں‘‘ پر قائم رہنے پر آمادہ رکھنے کی شیشہ گری جیسا نازک کام، اور پھر یہ نئی آفت کہ ترکی کی خلافت سے زمینی رابط منقطع ہونے کے بعد مجاہدین کے لیے اسلحے کا انتظام کیسے ہو؟ یہی نہیں یہ کام اس انتہائی رازداری سے کیسے کیا جائے، کہ وقت کے سپر پاور کو ان سرگرمیوں کا پتہ نہ چلے؟
ان بزرگوں کے دلوں میں آگ کے وہ الاؤ روشن تھے جس کی جلن سے یا تو ان کا رب باخبر تھا، یا خود یہ بزرگ اس کی حقیقت کو جانتے تھے۔ دنیا ان کے حال سے بے خبر تھی، اور ہے۔ آج وہ نمک حرام قوم، جس کی خاطر ان بزرگوں نے زندگی کی ہر راحت کی قربانی دی تھیں، انہیں اچھے الفاط سے یاد کرنے کی روادار نہیں۔ آپ حیران ہوںگے کہ سوات کے بہت سارے پختون گھرانوں اور مختلف حجروں اور محفلوں میں اس ناچیز نے خود وہ انتہائی نامناسب تبصرے سنے ہیں جو حضرت سید باباؒ جیسی شخصیت کے بارے میں مشہور کیے گئے ہیں۔ ان تبصروں کا لب لباب یہ ہے کہ حضرت کسی قسم کے روحانی کمال یا دینی نقطہ نظر سے کوئی پاکیزگی تو نہیں رکھتے تھے۔ البتہ سوات پر اپنی یا اپنی اولاد کی حکمرانی قائم کرنے کا دنیا دارنہ مقصد ان کے پیش نظر تھا۔ استغفراللہ! حالانکہ آگے ہم وضاحت کرنے والے ہیں کہ انہوں نے موقع ملنے کے باوجود کس طرح اپنے آپ کو براہ راست اقتدار کی ذمہ داری سے بچایا اور فقیری کو امیری پر ترجیح دے دی۔ اس فقیر کی زندگی کس حالت میں گزر رہی تھی؟ اس کا حال ایک دلچسپ لطیفے میں سن لیجئے۔ ہوسکتا ہے پشتو نہ سمجھنے والے اس سے محفوظ نہ ہوں، لیکن مجھے امید ہے پشتو زبان سے واقف اس کی تہہ تک پہنچ جائیںگے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post