سرفروش

0

عباس ثاقب
ان دونوں نے دعاؤں اور نیک خواہشات کے ساتھ مجھے رخصت کیا۔ میں راہ داری میں پہنچا تو وہاں کوئی نظر نہ آیا، البتہ زینہ اتر کر نیچے پہنچا تو گورکھا مستعدی سے نگرانی کر رہا تھا۔ میں اسے نظر انداز کرتا ہوا دفتر میں پہنچا تو مانک کو ایک اخبار کے مطالعے میں مصروف پایا۔
اس نے مجھے دیکھا تو گرم جوشی سے بولا۔ ’’جی سردار جی، ملاقات ہوگئی چھوکریوں سے؟‘‘۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں، دونوں میرے اندازے سے زیادہ حسین ہیں اور اتنی پیاری اردو بولتی ہیں، جیسے کوئل کوک رہی ہو۔ دل خوش ہوگیا۔ اب مجھے اطمینان ہے کہ اتنی بھاری دولت ضائع نہیں گئی‘‘۔
مانک نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ’’یعنی آپ سے انہوں نے اچھی طرح، گھل مل کر باتیں کیں؟ مجھے تو ڈر تھا کہیں بدتمیزی نہ کریں۔ میرے کئی گاہکوں کو بھگا چکی ہیں یہ دونوں بدمعاش…‘‘۔
اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی میں نے گرج کر کہا۔ ’’اب وہ میری ملکیت ہیں مانک۔ زبان سنبھال کر بات کرو!‘‘۔
میری زوردار ڈپٹ سن کر وہ سٹ پٹا گیا۔ ’’شما کردیں بہادرسنگھ جی، غلطی ہو گئی‘‘۔
میں نے قدرے نرم لہجے میں کہا۔ ’’اتنا تجربہ رکھتے ہو۔ اتنا تو معلوم ہونا چاہیے کہ گاہک گاہک میں فرق ہوتا ہے۔ بعض گھوڑیاں اتنی منہ زور ہوتی ہیں کہ اپنے قریب آنے والے کو جان سے مارنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ لیکن ماہر فن سدھانے والا انہیں بھی رام کر لیتا ہے۔ میں نے بھی درجنوں سرکش لڑکیاں رام کی ہیں۔ کہیں میٹھی زبان کا جادو چلانا پڑتا ہے تو کہیں عزت کا مقام دینے کے یقین دینے سے بات بن جاتی ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ میں ان میں سے بڑی سے گونا (شادی) کروں گا۔ چھوٹی کا کسی اچھے لڑکے سے ویاہ کر دوں گا‘‘۔
مانک نے خوشامدی لہجے میں کہا۔ ’’آپ نے ٹھیک ترکیب لڑائی ہے سردار جی۔ آپ تو ویسے بھی ہزاروں لڑکیوں کے سپنوں کے راج کمار جیسے ہیں، دولت کی چمک اپنی جگہ ہے۔ آپ کی نظر میں آنا تو ان کی خوش قسمتی ہے جی۔ ورنہ کوئی بڈھا کھوسٹ مہاجن بھی ان کے متھے لگ سکتا تھا‘‘۔
میں نے اس کی چرب زبانی نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ ’’ ٹھیک ہے، تو میں چلتا ہوں۔ پرسوں شام سورج ڈھلنے کے سمے ملاقات ہوگی۔ میری درخواست ہے کہ ان دونوں کو اپنی کوٹھی سے میرے حوالے کرنا۔ ذرا اچھا رہے گا‘‘۔
اس نے کہا۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے جی، لیکن اگر ان دونوں نے میرے ساتھ جانے سے انکار کر دیا تو مسئلہ ہو جائے گا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’تم فکر نہ کرو، میں نے انہیں سمجھا دیا ہے۔ تم سے اڑی نہیں کریں گی۔ پرسوں مغرب سے پہلے انہیں تمہاری کوٹھی پر پہنچ جانا چاہیے‘‘۔
اس نے خوشامدی لہجے میں کہا۔ ’’آپ فکر نہ کریں جی۔ اب یہ آپ کی امانت ہیں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی پھولی ہوئی جیب تھپتھپائی۔
میں حویلی سے نکل کر اپنی جیپ کی طرف بڑھا تو میں نے عقب میں دروازہ بند ہونے کی آواز سنی۔ جیپ حویلی سے لگ بھگ ایک فرلانگ آگے بڑھی تو ظہیر اجازت لے کر سامنے والی نشست پر آگیا۔ اس نے بے تابی سے پوچھا۔ ’’سب ٹھیک تو ہے جمال بھائی؟‘‘۔
میں نے مطمئن لہجے میں بتایا۔ ’’الحمد للہ، سب بہترین رہا۔ اب وہ مانک کے پاس ہماری امانت ہیں۔ وہ پرسوں شام اپنی کوٹھی سے انہیں رخصت کرے گا‘‘۔
یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ آپ نے اس عقوبت گاہ میں جتنا وقت گزارا ہے، اس سے لگ رہا ہے کہ آپ ان دونوں بچیوں سے مل کر آئے ہیں۔ میرا اندازہ درست ہے ناں؟ کیا ردعمل دکھایا انہوں نے؟‘‘۔
میں نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ ’’تم بالکل ٹھیک سمجھے ہو۔ اتنی بھاری رقم ایڈوانس دینے کے بعد اپنی یہ بات منوانے کا تو حق تھا ناں مجھے؟ لیکن وہ شروع میں سخت خوف زدہ اور ناراض تھیں۔ انہیں اصل حقیقت بتانے اور اپنی نیت کا یقین دلانے میں بہت مشکل ہوئی‘‘۔
میں نے ظہیر کو رخسانہ اور جمیلہ سے اپنی تمام گفتگو تفصیل سے سنائی۔ وہ سن کر خوش ہوگیا، لیکن ان کے خاندان پر ٹوٹنے والی قیامت کا سن کر افسردہ بھی ہوا۔ آخر میں، میں نے بتایا کہ میرا پستول اب ان دونوں کے پاس ہے اور اس کے استعمال کا طریقہ بھی میں نے سکھا دیا ہے۔
ظہیر نے پُرجوش لہجے میں کہا۔ ’’یہ آپ نے بہت اچھا کیا۔ کشمیر کی بیٹیاں ہیں۔ بہادری تو ان کے خون میں شامل ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’وقت بہت گزرگیا تھا، ورنہ ان کی بہن کے بارے میں مزید پوچھتا۔ چلو پرسوں سہی!‘‘۔
ظہیر نے میری بات سن کر سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔ ’’جب تک اس کا پتا نہیں لگے گا، ہمارا مشن ادھورا رہے گا جمال بھائی!‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’فکر نہ کرو۔ ہم دل پر کوئی بوجھ لے کر معاملہ ختم نہیں کریں گے۔ نہ صرف شازیہ، بلکہ ہمیں ان تینوں کی ماں کا بھی پتا لگانا ہے۔ جانے ان مظلوموں پر کیا بیتی ہوگی!‘‘۔
اچانک ظہیر نے سوال کیا۔ ’’ہمیں ابھی سے مانک کے قبضے میں جانے والی رقم واپس حاصل کرنے کی منصوبہ بندی بھی شروع کر دینی چاہیے۔ کچھ مشاہدے میں آیا، آپ نے جو دس ہزار روپیے اس کے حوالے کیے ہیں، کیا وہ ناری نکیتن کی کسی تجوری میں محفوظ کیے گئے ہیں یا…؟‘‘۔
میں نے کچھ سوچ کر کہا۔ ’’نوٹوں کی وہ موٹی گڈیاں میرے باہر نکلنے تک مانک کی اندرونی جیب میں موجود تھیں۔ اگر یہاں کہیں رکھنی ہوتیں تو اسے کافی وقت ملا تھا۔ لگتا ہے اپنی ریلوے لائن پار والی کوٹھی میں ساتھ لے جائے گا‘‘۔
ظہیر نے میری بات غور سے سنی اور میری تائید کی۔ ’’یہ تو بہت اچھا ہے۔ اس کوٹھی میں اس کی گردن دبوچنا آسان ہوگا‘‘۔ (جاری ہے)

٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More