’’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی‘‘ کے مصداق وزیر اعظم عمران ہر روز کوئی نئی بات کرکے اور عوام کو کسی نئے وعدے کے جال میں پھنسا کر توقع رکھتے ہیں کہ ان کی باتوں کو من و عن تسلیم کر لیا جائے، خواہ ان کی حکومت نے ملک اور قوم کو رتی برابر فائدہ نہ پہنچایا ہو۔ ان کے ترقی و خوشحالی کے دعوے برسراقتدار آتے ہی اس وقت ہوا میں تحلیل ہوگئے جب تیل، گیس، بجلی اور تمام اشیائے صرف کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا، ٹیکس بڑھائے گئے۔ امریکا اور آئی ایم ایف کی خوشنودی کیلئے امریکی ڈالر کی قیمت بے انتہا بڑھا کر پاکستانی روپے کو بے قدر و منزلت کیا گیا۔ تادم تحریر اقتصادی زبوں حالی کا عالم یہ ہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں زبردست مندی کا رجحان ہے۔ سعودی امداد کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر آٹھ، نو ارب ڈالر سے آگے بڑھنے کا نام نہیں لیتے۔ جبکہ منگل کو سونے کی قیمت ستّر ہزار روپے سے اوپر پہنچ گئی۔ آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے کے لاکھ جتن کئے جا رہے ہیں، حالانکہ عمران خان کی حکومت نے ابتدا میں اعلان کیا تھا کہ وہ قومی مسائل اور دوست ملکوں کی مدد سے ملک کے معاشی بحران پر قابو پالیں گے۔ آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کی بیل اس لئے منڈھے نہیں چڑھ پا رہی ہے کہ اس کی شرائط بہت سخت ہیں، جنہیں مکمل طور پر تسلیم کرنے سے ایک طرف ملک کی آزادی و خود مختاری متاثر ہونے کا اندیشہ ہے تو دوسری جانب ہر شے کی قیمت بڑھانے اور ترقیاتی بجٹ میں زبردست کمی سے حکومت کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اپنی حکومت کی ناکامی کا پیشگی اندازہ کرکے قبل از وقت انتخابات کا خود ہی شوشہ چھوڑ چکے ہیں۔ موجودہ حکومت کیلئے اس سے زیادہ خفت کا سامان اور کیا ہوگا کہ اس کے وزیر خزانہ اسد عمر آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی تکمیل سے قبل ہی اعلان کرچکے ہیں کہ ہم نے آئی ایم ایف کی جانب سے شرائط پیش کرنے کا انتظار نہیں کیا، بلکہ ازخود ٹیکس اور قیمتیں بڑھا کر، پاکستانی کرنسی کو ڈالر کے مقابلے میں بری طرح گرا کر اور دیگر اقدامات کے ذریعے عوام پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال کر آئی ایم ایف کے سامنے صرف گھٹنے نہیں ٹیکے، بلکہ فرش پر لیٹ گئے ہیں۔ اس سود خور عالمی مالیاتی ادارے کو شک ہے کہ ہم اس سے قرض لے کر کہیں چینی قرضوں کی ادائیگی میں خرچ نہ کردیں۔ چنانچہ ہم نے اسے چینی قرضوں اور ادائیگی کی تفصیلات بھی پیش کر دی ہیں۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف پوری طرح امریکا کے کنٹرول میں ہے، جو کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان اور اس کے عوام کو اس کے قرضوں سے کوئی فائدہ پہنچے یا اس کے توسط سے چین کو ادائیگی ہوتی رہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت زبردست مہنگائی کے بعد جو ضمنی بجٹ لانے والی ہے، اس سے بجٹ خسارہ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ سوال یہ ہے عوام کو مزید گرانی کے سوا کیا ملے گا؟ تحریک انصاف کی حکومت نے اب تک جو کارکردگی دکھائی ہے، اس کے تناظر میں وزیر خزانہ کی یہ بات مذاق ہی لگتی ہے کہ ان کی حکومت عوام کو ریلیف دینے کیلئے بہت سے اقدامات کررہی ہے۔
ان اقدامات کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ غریبوں کے لئے پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے کا وعدہ کرنے والی حکومت نے زکوٰۃ و خیرات اور صدقات سے غریبوں کی مدد کرنے والے فلاحی ادارے سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کو پارٹنر شپ کی دعوت دے کر اس سے تعاون طلب کیا ہے۔ گورنر سندھ عمران اسمٰعیل کا کہنا ہے کہ اس کار خیر کیلئے وزیر اعظم عمران خان سے پانچ ہزار فلیٹوں کے لئے زمین لے کر دوں گا۔ پانچ ہزار فلیٹ پچاس لاکھ گھروں کا ایک ہزارواں حصہ ہے۔ ان کیلئے ابھی تو زمین حاصل کرکے سیلانی ٹرسٹ کو دی جائے گی، اس کے بعد کن شرائط پر اور کتنے عرصے میں تعمیر مکمل ہوگی اور غریبوں کو کس قیمت پر فلیٹ دئیے جائیں گے؟ اسی سے قبل تحریک انصاف کی حکومت یہ بتا چکی ہے کہ غریبوں کو قسطوں کے ذریعے مکانوں کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ ابھی تو صرف پانچ ہزار فلیٹوں کی بات سامنے آئی ہے اور وہ بھی ایک خیراتی ادارے کے تعاون سے۔ باقی اننچاس لاکھ پچاس ہزار مکانات، جھونپڑیاں یا فلیٹس کب اور کیسے بنیں گے اور کیا پانچ سال کی مدت میں یہ پاکستان کے غریبوں کی موجودہ نسل تک منتقل ہوسکیں گے؟ بظاہر یہ سب کچھ خواب و خیال کی باتیں لگتی ہیں۔ اس امر کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ یہ حکومت اپنی عادت کے مطابق کوئی یوٹرن لے کر کہہ دے کر ہم نے ایسا کوئی وعدہ ہی نہیں کیا۔ اگر کیا بھی تھا تو اس کا مفہوم وہ نہیں جو اپنی چھت سے محروم غریبوں نے اخذ کرلیا ہے اور بالفرض ایسی کوئی بات ہمارے رہنما کے منہ سے نکل گئی تھی تو ہم قوم کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سابقہ حکومت ملک کو جس بدترین اقتصادی بحران میں مبتلا کرکے گئی ہے اور جو ہمیں ورثہ میں ملا ہے تو موجودہ حالات میں اس وعدے کی تکمیل ممکن نہیں۔ البتہ اگلی بار بھی ہمیں حکومت کا موقع دیا جائے تو غریبوں کے اس خواب کی تعبیر نکالنے کی کوشش کریں گے۔ اپنی حکومت کی سمت متعین کرنے، قلابازیاں نہ کھانے اور راہ راست پر رہنے کا عہد کرنے کے بجائے وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ قوم اور بیورو کریسی کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہوگا۔ ہم سے پاکستان میں اب تک جو غلطیاں ہوئیں انہیں ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ وزیراعظم اپنی حکومت، پارٹی اور رہنماؤں کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی بات نہیں کررہے، جسے ان کے خیال میں تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس قوم اور بیورو کریسی کو تبدیلی کی ضرورت ہے اور پاکستان کی غلطیاں ٹھیک ہونی چاہئیں۔ وزیر اعظم عمران خان برسر اقتدار آنے کے بعد بھی جس طرز کی شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں، اس حال میں انہیں زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنا موازنہ نبی اکرمؐ اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ سے خود کو تشبیہ دیں، خواہ کسی بھی صورت میں ہو۔ انہوں نے شاید نہایت متقی بزرگوں کو اپنی بابت یہ کہتے نہیں سنا کہ ’’چہ نسبت خاک را با عالم پاک‘‘۔ عمران خان نبی پاکؐ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ امور مملکت سنبھالنے کے بعد انہوں نے کوئی کاروبار کیا نہ پیسا بنایا اور یہی ہمارا بھی فلسفہ ہے۔ اس پر ان سے صرف دو سوال کئے جا سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ کیا عمران خان کی زندگی میں اسلام کی ان دو مقدس ہستیوں کا کوئی معمولی شائبہ بھی موجود ہے؟ دوسرا یہ کہ اگر ان کا کوئی کاروبار یا پیسے بنانے کی مشین نہیں تو وہ عیش و عشرت کی شاہانہ زندگی کیسے گزار رہے ہیں، جبکہ ضروری اور جائز اخراجات کے علاوہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے خرچوں کے چرچے عام ہیں۔٭
Next Post