ہائیڈ پارک
شیراز چوہدری
پیپلز پارٹی کے قائد آصف زرداری کو پارٹی اور اس کے حامی حلقوں نے مفاہمت کے بادشاہ کے طور پر مشہور کر رکھا ہے اور ساتھ ہی دوسری مشہوری یہ ہے کہ وہ بہت ہوشیار سیاستدان ہیں، اس کیلئے ’’ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ کا نعرہ بھی ایجاد کر رکھا ہے۔ سچی بات پوچھیں تو ہمیں ہوشیار سیاستدان اور سب پر بھاری والی مشہوری تو کبھی ہضم نہیں ہوئی، کیوں کہ ان کے پارٹی سربراہی سنبھالنے کے بعد اگر کوئی ان کے بوجھ تلے دبا ہے، تو وہ ان کی اپنی جماعت ہی ہے، باقیوں کے لئے تو پیپلز پارٹی کا سیاسی وزن کم ہی ہوا ہے اور اب اتنا کم ہوگیا ہے کہ میڈیا کا شوشپا نہ ہو تو پی پی پی تین صوبوں میں تو بھولی بسری کہانی لگنے لگے۔ سوشل میڈیا کو آپ عوامی میڈیا کہہ سکتے ہیں اور اس پر آپ گھوم پھر لیں، مشکل سے ہی آپ کو کہیں پیپلز پارٹی نظر آئے گی۔ جس وقت میڈیا میں زرداری کی تقریر کو دھواں دھار قرار دے کر دھواں اڑایا جا رہا تھا، سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ایسا سکوت تھا، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، وہاں لڑائی اور ٹرینڈ تحریک انصاف اور ن لیگ کے معاملات پر بنتے ہیں، کیوں کہ ملک میں انہی دو جماعتوں کے حامی موجود ہیں۔ پھر شاید آصف زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی واقعی اتنی بھاری جماعت بن چکی ہے کہ سوشل میڈیا اس کا وزن نہیں اٹھا سکتا، وہاں تو زیادہ تر عام لوگ اور خصوصاً نوجوان ہوتے ہیں، جن کی نظریں مستقبل پر ہوتی ہیں، ازکار رفتہ میں ان کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
خیر پی پی پی سربراہ نے لگتا ہے سخت سردی کا خیال کئے بغیر مفاہمت کی چادر اتار کر ایک طرف رکھ دی ہے، کیوں کہ یہ چادر بھی اب انہیں سردی سے بچاتی نظر نہیں آرہی تھی، ویسے بھی جڑواں شہروں میں ان دنوں جاڑا زوروں پر ہے اور بارش نے دھند کم کر دی ہے، اب مطلع زیادہ صاف نظر آرہا ہے، آصف زرداری نے بھی صاف مطلع میں اپنے لئے آگے کا ’’موسم‘‘ ناسازگار دیکھ کر ہی کشتیاں جلانے کا فیصلہ کیا ہوگا، تین برس پہلے بھی انہوں نے ایسے ہی کشتیاں جلانے کی مشق کی تھی اور پھر انہیں تقریباً دو برس ملک سے دور جزیرے میں گزارنے پڑے تھے، کیوں کہ کشتیاں جلانے کے بعد انہیں احساس ہوا تھا کہ اس طرح تو وہ ڈوب جائیں گے، اس
وقت ان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ محفوظ جزیرے (دبئی) میں پہنچ گئے، لیکن اس بار وہ اتنے خوش قسمت نظر نہیں آرہے، طوفان کی رفتار زیادہ نظر آرہی ہے، اس لئے وہ کشتی میں رہیں یا اسے جلا دیں، لگتا یہ ہے کہ اس سے نتیجے پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ جے آئی ٹی نامی طوفان انہیں بہا کر لے جانے والا ہے، طوفان کی تاریخ تو محکمہ موسمیات نے27 دسمبر کے بعد کی دی ہے، کیوں کہ اس تاریخ کو بینظیر بھٹو کی برسی ہے اور پی پی پی کے پاس اب سیاست کرنے کے لئے عملی طور پر یہی ایک دن رہ گیا ہے، سو انہیں اس موقع سے محروم نہیں کیا گیا، بلکہ طوفان کی تاریخ کو آگے کر دیا گیا ہے۔ زرداری کی تازہ گھن گرج سے بھی طوفان کے شیڈول اور رخ دونوں تبدیل ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا، البتہ اب اس کی رفتار اور تباہی کی شدت میں تیزی پر سارے ’’موسمیاتی‘‘ ماہرین قریب قریب اتفاق کر رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی شاید یہ اب گھٹی میں چیز میں بس گئی ہے کہ جب بھی وہ مشکل میں ہو، تلواریں پنجاب کے خلاف سونت کر آجاتی ہے، سو آصف زرداری نے بھی سندھ کارڈ نکالتے ہوئے پنجاب کو نشانے پر رکھنا ضرور یاد رکھا، ویسے افسوس ہوتا ہے کہ ایک ایسا رہنما جو اس ملک کے اعلیٰ ترین عہدے صدارت تک پہنچا، وہ ملک کے ایک صوبے کے خلاف اس طرح کی باتیں کرے، بجلی بند کرنے کی دھمکیاں دے، حالاں کہ اہل پنجاب کا ان کے خلاف اٹھنے والے طوفان سے اتنا ہی تعلق ہے، جتنا اب پیپلز پارٹی کا پنجاب سے رہ گیا ہے، اس طوفان سے اگر فائدہ ہونا ہے، کچھ سبزا آنا ہے، تو سندھ میں ہی آنا ہے، جہاں جعلی اکائونٹس کا سارا کھیل کھیلا گیا، جس کے خزانے کو فالودہ اور رکشہ والوں کے اکائونٹ سے گھما پھرا کر باہر منتقل کیا گیا۔ سندھ کارڈ تو پی پی پی ہر بار نکالتی ہے، لیکن یہ کارڈ اب وہ اتنا استعمال کر چکی ہے کہ اس میں بیلنس ختم ہو چکا ہے، اس کے آثار صوبے میں حالیہ جلسوں سے بھی ملے، جو کسی طور پر بھی متاثر کن نظر نہیں آئے، شاید یہی وجہ ہے کہ سندھ کارڈ کا بٹن بھی غلط دب گیا، فیصل آباد یعنی پنجاب کی بجلی بند کرنے کی دھمکی دی گئی، حالاں کہ پنجاب میں سندھ سے بجلی نہیں آتی، بلکہ پانی کی طرح پنجاب سے سندھ میں جاتی ہے، کیوں کہ پن اور تھرمل پاور کے زیادہ تر پلانٹ پنجاب میں ہیں، ہاں اگر گیس کی بات کرتے تو پھر بھی سمجھ میں آتا۔ ایک طرف پیپلز پارٹی کی قیادت پنجاب کی بجلی بند کرنے کی بات کر رہی تھی اور دوسری سانس میں مڈٹرم الیکشن ہونے اور اس میں جیت کر حکومت بنانے کا دعویٰ بھی کیا گیا۔ پنجاب میں پہلے ہی پیپلز پارٹی اتنی مقبول ہے کہ اس کے بیشتر قومی اور صوبائی امیدواروں نے کونسلرز جتنے ووٹ لئے تھے، پارٹی ٹکٹ دینے کے لئے قیادت کو امیدوار تلاش کرنے پڑے تھے، پھر بھی پورے امیدوار نہیں ملے، اس کے باوجود حکومت بنانے کے دعوے کرنا واقعی حوصلے کا کام ہے۔ تکبر تو انسان کو لے بیٹھتا ہے، یہ کہنا کہ کسی کے تین سال ہیں اور ہم یہاں مستقل ہیں، کیا پیغام دے رہا تھا، حالاں کہ تین برس پہلے بھی انہوں نے اسی طرح تین برسوں والے کا ذکر کیا تھا اور اب پھر انہیں اس کے ذکر کی ضرورت پڑگئی ہے تو سمجھ جانا چاہئے تھا کہ اگر آپ یہاں ہیں تو تین سال والے بھی یہیں ہیں، کیوں کہ تین سال والے سیاسی جماعتوں کی فیملی لمیٹڈ کمپنیوں کی طرح انفرادی پالیسی پر نہیں چلتے، بلکہ ان کی ادارتی پالیسی چلتی ہے، وہاں افراد آتے جاتے رہتے ہیں، ادارہ اپنا کام کرتا جاتا ہے، سیاستدانوں کے تین برسوں والے طعنے سے اور کچھ ہو نہ ہو، ہمیں یہ توقع ضرور ہے کہ ادارے اپنی پالیسی کو مزید ادارہ جاتی استحکام دیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تین سال والوں کو قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں کا بیان دینے کے بعد اگلی سانس میں ہی ان تین سال والوں سے نظر کرم کی درخواست بھی کی گئی کہ ہمیں موقع دیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پی پی پی کو اب تک پرویز مشرف کی سہانی یادیں ستاتی ہیں، جنہوں نے این آر او کے ذریعے انہیں پہلے قانونی داغوں سے نجات دی اور پھر اقتدار کی راہ بھی ہموار کر دی۔ ٭