دل میں اک یاد کہ نیزے کی انی ہو جیسے

0

پوٹھوار کی ساری ادائیں بدل رہی ہیں۔ قابل بھروسہ لوگ بھی بہت ہیں، کہیں کہیں پھل دار درخت بھی نظر آہی جاتا ہے، مگر موسم کی بے اعتباری کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ اکتوبر اور نومبر کے مہینے بلندی پر واقع نیلگوں آسمانی سمندر سے دھرتی کے پیالوں کو ایک قطرہ بھی میسر نہ ہوا۔ البتہ دسمبر کے ابتدائی دنوں میں ہر قطرے کے ساتھ جسموں کو منجمد کرنے والا عذاب نازل ہو رہا ہے۔ شہروں میں رہنے والوں کو جسم و جاں کو ڈھانپنے کیلئے نرم و گرم لباس، شال اور دوشالے میسر ہیں۔ گھروں میں گیس کے ہیٹر اور چولہے موجود ہیں، مگر خدا کی وہ مخلوق بھی ہے، جن کی رسائی ان نعمتوں تک نہیں ہے۔ ان کے ہاتھ دھوپ کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔ مہربان باری تعالیٰ نے موسم کے تغیر و تبدل میں حکمت بھی رکھی ہے، اس ساری کلف و راحت کے ساتھ دسمبر کا مہینہ حساس ذہنوں کے لئے ایک اور عذاب کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ ہرچند کہ نوجوان نسل اس ذہنی عذاب سے آشنا نہیں ہے، تاہم عمر کی سات آٹھ دہائیاں گزارنے والے ذہنوں پر یہ مہینہ کچوکے لگاتا ہے، یاد دلاتا ہے کہ ایک مرد دانا نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک خطہ زمین حاصل کیا تھا، جس کا مقصود اب نظروں سے اوجھل ہو چکا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی رحلت اور قائد ملت لیاقت علی خانؒ کی شہادت کے بعد اس خطہ زمین کا اختیار و اقتدار ایسے ہاتھوں میں چلا گیا، جو اس کے حصول کے مقصد سے ناآشنا ہے اور خدا کی زمین اور اس پر بسنے والی مخلوق پر حکم چلانے کے سوا کوئی مطمح نظر ان کا نہ تھا۔ قانون ان کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی سے زیادہ اہمیت نہ رکھتا تھا۔
56ء میں ایک آئین منظور ہوا اور اس کے تحت 58ء میں عام انتخاب ہونا قرار پائے، مگر ایک مرد نادان نے اس خواب کو بے تعبیر کر دیا۔ جس قوم نے محمد علی جناح کی قیادت میں ہندو اور انگریز سے ایک آزاد وطن کا مقدمہ کامیابی سے جیتا تھا، اس کے بارے میں کہا گیا کہ اسے ووٹ کا شعور نہیں ہے۔ ون مین ون ووٹ کے لائق یہ قوم نہیں۔ جب اس نے ایک دستور دیا، اس کے بارے میں کسی دانشور کا کہنا تھا کہ اس میں ایوب خان کی حیثیت فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی سی ہے۔ 62ء کے دستور میں یہ بات درج ہے کہ صدر مستعفی ہوگا تو اختیارات چیف
جسٹس کے حوالے کرے گا، مگر ایسا نہ ہو سکا۔ ایک باہوش صدر کی جگہ ایک مدہوش شخص صدر ہوگیا اور یوں 70ء میں ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر انتخابات ہو گئے۔ مشرقی پاکستان (مرحوم) کی آبادی زیادہ تھی۔ سو قومی اسمبلی میں اس کی نشستیں بھی زیادہ تھیں، پھر آسمانی مخلوق کے چہیتے نے اِدھر ہم اُدھر تم کا نعرہ لگا۔ مشرقی پاکستان (مرحوم) کے شہر ڈھاکہ میں اجلاس بلایا گیا تو دھمکی دی گئی کہ جو ڈھاکہ جائے گا، اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ ٹانگیں تو محفوظ رہیں، مگر ملک ٹوٹ گیا۔ مشرقی پاکستان میں کیا کیا قیامتیں ٹوٹیں۔ پہلے ہم نے سیاست کے جواب میں بندوق کی بولی بولی۔ ردعمل میں جو کچھ ہوا، اس کے ذکر سے روح کانپتی ہے۔
تیز گزری ہے ادھر گردش درد آشنی
کربلائیں یہاں خاک میں پنہاں کتنی
کتنی ہیریں تھیں رانجھے جنہیں لا بھی نہ سکے
کتنی عذرائیں تھیں وافق جنہیں پا بھی نہ سکے
15 دسمبر کو 16 دسمبر کے لیے تیار ہونے والے اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ خبر شائع ہوئی کہ ڈھاکہ میں بھارتی فوج میری لاش پر گزرے گی۔ کہنے والے نے کہہ تو دیا، مگر اپنے قول کو عمل کے قالب میں ڈھالنا اتنا آسان نہیں۔ پھر پاکستان کا نام لینے والی ہر زبان پر شہادت کا قفل لگا۔ مولوی فرید احمد، عبد القادر خان شہید کر دیئے گئے۔ ایک سچے اور کھرے پاکستانی جو ایک ریاست کے راجا تھے، ان کی جان کو کوئی خطرہ بھی نہ تھا۔ اپنی حکمرانی کو تیاگ کر پاکستان آگئے۔ وہ تھے راجہ تری دیو رائے اور یہیں ان کا مدفن ہے۔ ہزاروں بہاری ہیں جنہیں نہ بنگلہ دیش شہریت دینے پر آمادہ، نہ پاکستان قبول کرنے کو تیار ہے۔ آج بھی پاکستانی کے طور پر کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارا عزم و ارادہ خاک بسر ہو گیا۔ ہم نے ہر عہد بھلا دیا، کوئی روٹی، کپڑا اور مکان کا وعدہ کرکے اقتدار پر قابض ہوا اور بھوک، ننگ اور قبروں میں اضافہ کر کے خود بھی تہہ خاک جا سویا۔ کوئی اسلامی نظام کے نفاذ کا دعویدار بنا اور کفر کی قوتوں کا مددگار بن کر رخصت ہوا، تو کوئی نئے پاکستان کی نوید سناتا ہوا آیا اور پرانا پاکستان بھی اس سے سنبھالا نہ گیا۔ اب ہم افق پر نظر جمائے کسی ایسے شخص کے انتظار میں ہیں، جس کا کوئی ایک قول عمل کے قالب میں ڈھل سکے۔ اے رب کائنات کسی معجزاتی رہنما کو بھیج، جو عذاب میں مبتلا مخلوق کا نجات دہندہ بن جائے۔ ہم تو نئے اور پرانے کے چکر میں پھنس کر زندگی کی شام تک آپہنچے۔ دسمبر کا مہینہ ہمارے لیے تو دل میں اک یاد کہ نیزے کی انی ہو جیسے بن کر رہ گیا۔
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوز محبت کے سوا
کوئی بت کئی خدا یاد نہیں
آئیے عرض گزاریں کہ نگار ہستی
زہر امروز میں شیرینی فردا بھر دے
وہ جنہیں تاب گراں باری ایام نہیں
ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دے
جن کی آنکھوں کو رخ صبح کا یارا بھی نہیں
ان کی راتوں میں کوئی شمع منور کر دے
جن کے قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں
ان کی نظروں پہ کوئی راہ اجاگر کر دے
جن کا دیں پیرویٔ کذب و ریا ہے ان کو
ہمت کفر ملے جرأت تحقیق ملے
جن کے سر منتظر تیغ جفا ہیں ان کو
دست قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے
(آمین)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More