مسعود ابدالی
13 فروری 2010ء کو نیٹو نے افغان فوج سے مل کر افغانستان کے صوبے ہلمند میں ایک زبردست کارروائی کا آغاز کیا، جسے ’’آپریشن مشترک‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس حملے میں 15 ہزار اتحادی فوجیوں نے حصہ لیا۔ 8 ماہ جاری رہنے والے اس آپریشن میں ہلمند کے ایک ایک انچ مربع زمین کو امریکی بمباروں نے نشانہ بنایا۔ اس دوران گھر گھر تلاشی میں قتل عام کے علاوہ خواتین سے بدسلوکی کے واقعات بھی ہوئے۔ امریکی فوج کے میجر میتھیو گولسٹائن (Major Matt Golsteyn) نے آپریشن مشترک میں شجاعت کے خوب ’’جوہر‘‘ دکھائے۔ چنانچہ اسے تمغوں سے نوازا گیا۔
افغانستان سے واپسی پر میجر میتھیو نے امریکی محکمہ سراغ رسانی CIA میں نوکری کی درخواست دی اور انٹرویو کے دوران شیخی بگھارتے ہوئے افغانستان میں اپنی دلیری و شجاعت کے کارنامے لہک لہک کر بیان کئے۔ میجر نے فخر سے کہا کہ اس کے دو ساتھی بارودی سرنگ کی زد میں اگر ہلاک ہوگئے، جن کی موت کا اس کو سخت صدمہ ہوا اور میجر نے قریبی گائوں سے بہت سارے ’’سیاہ پگڑی‘‘ والوں کو پکڑ لایا۔ ان قیدیوں میں سے ایک کے بارے میں اسے یقین تھا کہ اسی نے وہ بارودی سرنگ نصب کی تھی، جو اس کے ساتھیوں کی موت کا سبب بنی۔ تاہم بدترین تشدد کے باوجود اس شخص نے اعترافِ جرم نہیں کیا اور اسے رہا کر دیا گیا۔ میجر میتھیو کو یہ بات بہت بری لگی اور رہائی کے بعد گھر جاتے اس شخص
کو اس نے گولی مار کر موٹ کے گھاٹ اتار دیا کہ اسے یقین تھا کہ وہی اس کے ساتھیوں کا قاتل ہے۔
جس وقت یہ واقعہ پیش آیا تھا، تب میجر میتھیو نے تحقیقات کرنے والے افسر کو بتایا تھا کہ اس نے مشکوک بمبار پر گولی اس لئے چلائی تھی کہ وہ اس پر حملہ کرنا چاہتا تھا۔ میجر میتھیو کا یہ عذر تحقیقاتی افسران کو مطمئن نہ کرسکا اور موصوف امریکی فوج سے قبل ازوقت ریٹائر کردیئے گئے۔ سی آئی اے نے انٹرویو کے دوران میجر کے اعتراف کی اطلاع امریکی فوج کو دیدی، جس پر اس کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ قائم کر لیا گیا اور آج کل یہ معاملہ ایک فوجی عدالت میں زیر سماعت ہے۔
اس سب کے باوجود امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ میں فرمایا کہ وہ امریکی ہیرو میجر میتھیو گولسٹائن کے معاملے پر ہمدردی سے غور کررہے ہیں۔ یہ دراصل اس عزم کا اظہار تھا کہ اگر فوجی عدالت سے میجر کو سزا سنائی تو ڈونالڈ ٹرمپ اس قاتل کو صدارتی معافی دیدیں گے۔ زیر سماعت مقدمے میں معافی کا عندیہ دینا نظام انصاف میں مداخلت کے مترادف ہے۔ لگتا ہے کہ مسلم دشمنی میں صدر ٹرمپ رسم دنیا بھی بھول چکے ہیں۔
گہرے پانیوں میں گیس کی تلاش:
دیوقامت جہاز رگ (DrillShip) اس وقت کراچی کیلئے محو سفر ہے۔ Sipem-12000 نامی اس جدید ترین اطالوی رگ کی منزل کراچی کے ساحل سے 200 کلومیٹر دور گہرے پانی میں طے شدہ ایک مقام ہے، جہاں کیکڑا 1 نامی کنواں کھودا جائے گا۔ اطالوی کمپنی (Eni) کی قیادت میں ایک مشارکہ (Consortium) اس کنویں کی کھدائی اور تکمیل پر7 کروڑ ڈالر خرچ کرے گا۔ Eni کے علاوہ پاکستان پیٹرولیم لمیٹیڈ (PPL)، امریکہ کی ExxonMobil اور پاکستان میں تیل و گیس کی تلاش و ترقی کے قومی
ادارے OGDC کی اس مشارکے میں برابر یعنی 25 فیصد کی حصہ داری ہے۔ پاکستان میں قدرتی وسائل کی تلاش و ترقی کے قوانین کے مطابق تلاش کے مرحلے تک حکومتی ادارے Government Holding Private Ltd (GHPL)کو کسی خرچ کے بغیر 5 فیصد حصہ دیا جاتا ہے، جسے کامیابی کی صورت میں 50 فیصد تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ تاہم اس مرحلے پر GHPL کو ’’مفتے‘‘ کے مرحلے کے اخراجات بھی ادا کرنے ہوں گے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ یہ ضابطہ گہرے پانیوں میں بھی نافذ العمل ہے۔
جیسا کہ ہم نے عنوان میں عرض کیا کہ یہاں قسمت آزمائی بنیادی طور پر گیس کیلئے کی جا رہی ہے اور ماہرین کامیابی کے حوالے سے خاصے پر امید ہیں۔ پاکستانی بحیرئہ عرب میں پہلا کنواں PAKCAN-1 کے نام سے 1963ء میں کھودا گیا، جو خشک ثابت ہوا۔ اس کے بعد سے اب تک ایک درجن کے قریب کنویں کھودے جاچکے ہیں، لیکن کوئی بڑی کامیابی نہ ہو سکی۔ پاکستان کے گہرے پانی میں تیل و گیس کی تلاش کیلئے آخری کوشش 2007ء کے اختتام پر Shell کمپنی نے کی، جب کراچی کے ساحل سے 200 کلو میٹر دور 1300 میٹر گہرے پانی میں ایک کنواں کھودا گیا۔ اس کنویں کا نام Ann-Ax تھا۔ بدقسمتی سے یہاں بھی کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ 2010ء میں Eni اور PPL نے شارک کے نام سے ایک کنواں کھودا تھا، لیکن وہ زیادہ گہرے پانی میں نہیں تھا۔)