امریکہ نے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نام پر روس، ترکی اور ایران سے شام کا بدلہ لینے کا منصوبہ بنایا ہے، جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ علاقائی قوتوں کو مذاکرات کا مسلسل حصہ بنانے سے مذاکرات کی کامیابی کے آثار ختم ہو جائیں گے۔ بعض ممالک افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر دباؤ ڈال کر طالبان کو مذاکرات میں پیش رفت سے روکنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ افغان طالبان کے سیاسی دفتر کو گائیڈ لائن فراہم کرنے والے بارہ رکنی شوریٰ کے ایک اہم رکن نے ’’امت‘‘ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ اس خطے میں روس، ایران اور ترکی کے کردار کو ختم کرنے کیلئے طالبان کو ان سے دور کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ جبکہ ان ملکوں نے گزشتہ پانچ برسوں میں ناصرف طالبان کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کئے، بلکہ طالبان کو ایک قوت کے طور پر دنیا میں تسلیم کروانے کیلئے امریکہ پر دباؤ میں بھی اضافہ کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ترکی، ایران اور روس کا شام میں معاہدہ طے پانا اور اب تینوں ممالک کی جانب سے شام کے ایک متفقہ آئین اقوام متحدہ کے ذریعے لانے پر جہاں امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں ناکامی کا سامنا ہے، وہاں فلسطین کے مسئلے پر بھی مشرق وسطیٰ کے عوام ناراض ہیں۔ اس کے برعکس امریکہ شام کا بدلہ روس، ایران اور ترکی سے افغانستان میں لینا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں انہیں شامل نہ کیا جائے، صرف روس کا دورہ کر کے ان کے نمائندوں کو ان مذاکرات میں شامل نہ کرنا امریکی عزائم ظاہر کر رہا ہے۔ گائیڈ لائن فراہم کرنے والے رکن کے مطابق یہ محسوس ہورہا ہے کہ امریکہ بعض ممالک کے ساتھ مل کر افغان طالبان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ نہ صرف روس کا ساتھ چھوڑ دیں، بلکہ ایران کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو ختم کردیں، جو طالباں کیلئے مشکل ہے، ماضی میں طالبان کے ساتھ ان ممالک نے امداد کی ہے، جبکہ اس سے وعدہ خلافی بھی ہوگی۔ اس لئے طالبان یہ شرائط ماننے کیلئے تو تیار ہیں کہ افغان سرزمین نہ تو امریکہ کے خلاف استعمال ہوگی نہ ہی مشرقی وسطیٰ کے ممالک، نہ ہی روس، پاکستان اور ایران کے خلاف استعمال ہوگی، لیکن طالبان کو بعض ممالک کے ساتھ تعلقات سے روکنے کی باتیں کرنا یہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔ اس رکن نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے یہ دباؤ ڈالنا کہ بھارت کو افغانستان میں رول دیا جائے، طالبان کی سمجھ سے باہر ہے، کیوں کہ بھارت کی نہ تو افغانستان سے کوئی سرحد ملتی ہے اور نہ ہی بھارت اور افغانستان کی ماضی میں کوئی بڑی کاروباری شراکت داری
رہی ہے، جبکہ ایران اور افغانستان کی ماضی میں بھی شراکت داری رہی ہے۔ لیکن امریکہ ایران کو ان سارے معاملات سے دور رکھنے کی کوششیںکررہا ہے۔ طالبان روس اور ایران کے ساتھ ساتھ ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھیں گے اور مذاکرات امریکی انخلا اور قیدیوں کی رہائی پر مرکوز رہیں گے، جبکہ اقتصادی، حکومتی اور سیاسی امور بعد میں بھی حل ہو سکتے ہیں۔ اس وقت طالبان کو امریکہ کے غاصبانہ قبضے کو ختم کرنے کیلئے مذاکرات کرنا پڑ رہے ہیں، لیکن اس مذاکراتی عمل کے دوران یہ بات سامنے آرہی ہے کہ امریکہ شام میں اپنی ناکامی کا بدلہ افغانستان میں ایران اور روس سے لینا چاہتا ہے، جس سے افغانستان کے مسئلے میں مزید پیچیدگی پیدا ہوگی۔ کیوں کہ یہ دو ممالک افغانستان کے ہمسایہ ہیں، جس طرح پاکستان اور ایران کو افغانستان کے مسائل اور معاملات سے دور نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس کے اثرات ان دونوں ممالک پر پڑتے ہیں، اسی طرح روس کی بھی افغانستان کے ساتھ سرحد ملتی ہے، جس سے ماضی میں بھی روس اور افغانستان کے درمیان تجارتی شراکت داری رہی ہے۔ تاہم بار بار بھارت کو شامل کرنے پر اصرار سے منفی امریکی عزائم کا اظہار ہوتا ہے۔
Prev Post