قسط نمبر 15
محمد فاروق
اخون سوات حضرت سیدو بابا جیؒ نے سیدو میں اپنے مہمانوں اور کچھ مستقل مریدوں اور عقیدت مندوں کے علاوہ افادہ عام کی خاطر ایک لنگر جاری فرمایا تھا۔ کھانے کا انتظام کیا تھا؟ بس بڑی بڑی دیگوں میں پانی ابال کر اس میں کوئی ڈیڑھ کلو کی مقدار میں Mung Beans۔ جسے پشتو میں ’’مئیے‘‘ کہا جاتا ہے، ڈالا جاتا تھا۔ بعض اوقات اس میں گاڑھے پن کی خاطر تھوڑا سا مکئی کا آٹا بھی ملایا جاتا تھا۔ نمک کی شدید قلت تھی۔ اس زمانے میں مردان یا رستم سدم سے گدھوں پر نمک لاد کر لایا جاتا تھا۔ اور اس مشقت کو اٹھانے والوں کے لیے یہ کوئی منافع بخش کاروبار نہیں ہوتا تھا، اس لیے نمک کی ہمیشہ قلت ہی ہوا کرتی تھی۔ سیدو باباؒ کے لنگر کے کھانے میں جس دن نمک ہو تو کیا کہنے!۔ خیر درجہ بالا ترکیب اور اشیا سے تیار کردہ سالن کو، جو خالص گرم پانی سے مزاج و نوعیت میں کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوا کرتا تھا، جب نمک کے بغیر مکئی کی سخت اور سوکھی روٹی سے تناول فرمانے کی سعی کی جاتی تو ہر دوسرے نوالے کا حلق میں اٹک جانے اور جان کے لالے پڑ جانے کا واقع پیش آنا گویا ایک معمولی اور قدرتی امر تھا۔ چنانچہ تنگ آکر بعض مستقل رہائش پذیر مریدوں اور طالبان نے دبی زبانی میں شکایت شروع کردی کہ ایک طرف مکئی کی سوکھی روٹی ہے، دوسری طرف بغیر نمک، بمثل گرم پانی، شور با ہے، وہ بھی مقررہ مقدار کی پابندی کے ساتھ۔ آخر انہیں حلق سے کیسے اتارا جائے؟ چنانچہ سالن میں ’’مئیے‘‘ کی مقدار کو بڑھانے اور اس کو تھوڑا سا گاڑھا بنانے کی آرزو کی گئی۔ مگر بابا جیؒ تک یہ مطالبہ پہنچانے کی ہمت کون کرے؟ آخرکار مطبخ کے خانساماںکو اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ وہ یہ مطالبہ بابا جیؒ تک پہنچا دے۔ ساتھ ہی یہ دباؤ بھی ڈلایا گیا کہ اگر مریدان و طلبا کھانے سے بھوک ہڑتال پہ چلے گئے، تو حالات کی اس خرابی کی ساری ذمہ داری خانساماں پر ہی آئی گی کہ اسے بار بار مطلع کیا گیا تھا۔ پھر بھی اس نے اس جائز مطالبے کو کوئی اہمیت نہ دے کر اور جان بوجھ کر بابا کو اس سے بے خبر رکھا۔ چار و ناچار بندہ بابا کے حضور کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ:’’حضور…! طالبان وائی چہ دا پیتی دے ٹینگہ کڑے شی!۔
باباجی:
’’چہ ٹینگہ دے کڑہ نوٹینگہ بہ یئے نہ کے‘‘۔یعنی خانساماں کا کہنا یہ تھا کہ سالن کو تھوڑا گاڑھا بنایا جائے۔ بابا جی کا جواب یہ تھا کہ پھر اس خرچے کے سامنے ٹھہر نہیں سکو گے!۔یہ تو حال تھا ان کے شب و روز کا۔ بابا جیؒ کے حوالے سے کچھ اور غلط فہمیاں بھی پھیلائی گئی ہیں۔ مگر اصل میں ان کی طبیعت میں جلال و ظرافت دونوں موجود تھے۔ اس لیے بعض اوقات ان کی کسی ظرافت آشنا لطیفے کو سمجھے بغیر اسے ایک غلط رنگ میں پیش کر کے، ان کے امیج کو خراب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً ایک جوشیلے مرید نے ملاقات کے دوران عرض کیا کہ حضور! میں تو شہادت کی موت کی آرزو رکھتا ہوں۔ اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی مجھے اور آپ کو بھی شہادت کی موت نصیب فرمائے۔ اس پر بابا جیؒ کی رگ ظرافت پھڑک اٹھی اور فرمایا ’’اچھا! تو تم چاہتے ہو کہ دشمنان اسلام اور کفار مجھے خون میں نہلا کر میرے گوشت، ہڈیوں کا قیمہ بنادیں؟ تمہیں اس کی آرزو ہو تو اللہ کرے تیرے ساتھ ایسا معاملہ ہو۔ مجھے تو اپنے پیارے نبیؐ کی طرح اپنی چار پائی پر سکون کی موت ہی پسند ہے‘‘۔
بہرحال، بات سنڈاکئی بابا جیؒ کی ہو رہی تھی۔ سید تقویم الحق کاکا خیل مرحوم کی گواہی تھی کہ انگریز کے خفیہ اداروں کی نظر سے بچنے کی خاطر حاجی صاحب ترنگزئیؒ نے ایک بڑے ’’خیرات‘‘ کا بندوبست فرمایا۔ بہت سارے جانور ذبح کیے گئے، مریدان و عقیدت مندوں کے علاوہ مخلوق خدا اس پروگرام میں شرکت کے لیے امنڈ پڑی۔ سائے کی طرح پیچھے لگے خفیہ والوں کو بھی خوب کھلایا پلایا گیا۔ زور زور سے مسجد و محلہ بھر میں ذکر اور تسبیحات کا ورد ہونے لگا۔ یہ تاثر دیا جانے لگا کہ یہ خالص مذہبی اور روحانی قسم کا کوئی خانقاہی پروگرام ہے۔ لیکن ایک طرف اس پروگرام میں ابوالکلام آزاد تشریف لاکر شیخ الہندؒ کا ایک ’’خفیہ‘‘ پیغام، حاجی صاحب کو پہنچا گئے تو دوسری طرف اس بھیڑ بھاڑ میں حاجی صاحب برٹش انٹیلجنس کو جل دے کر چپکے سے نکل گئے اور قبائلی علاقے میں پہنچ گئے جو اس وقت برٹش راج کے تسلط سے آزاد تھا۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے کچھ مقامی و غیر، لوہاروں کو جمع کر کے اسلحہ سازی کے ایک چھوٹے کارخانے کی بنیاد رکھی جو بعد میں ترقی کر کے ایک اچھی خاصی صنعت کی شکل اختیار کر گیا۔
(جاری ہے)