تابعین کے ایمان افروز واقعات

0

حضرت عروہ بن زبیرؒ
’’عبدالملک بن مروان کہتے ہیں کہ جس کسی کو جنتی آدمی دیکھ کر خوشی ہوتی ہو تو وہ عروہ بن زبیرؒ کو دیکھ لے۔‘‘
ایک دن عصر اور مغرب کے درمیان جب سورج اپنی سنہری کرنوں کو کعبہ میں جمع کر رہا تھا اور خوش گوار تروتازہ ہواؤں سے کعبہ کے پاک صحن میں لوٹ پوٹ ہونے کی اجازت طلب کر رہا تھا… اور نبی پاکؐ کے ساتھیوں میں سے باقی رہنے والے صحابہ کرامؓ اور جلیل القدر تابعینؒ کعبہ کا طواف شروع کر کے تکبیر و تہلیل کے نعروں سے فضا کو معطر کررہے تھے اور اچھی اچھی دعاؤں سے اپنی امیدوں کے دامن بھر رہے تھے۔
پھر طواف سے فارغ ہو کر ٹولیوں ٹولیوں کی صورت میں حلقے بنا کر کعبہ معظمہ کی عظمت کے سامنے بیٹھ گئے اور اپنی آنکھوں کو اس کے خوب صورت اور دل کش نظارے سے لطف اندوز کرنے لگے اور آپس میں ایسی گفتگو کرنے لگے جس میں نہ تو کوئی فضول بات تھی اور نہ ہی گناہ کی بات۔
اس دوران رکن یمانی کے قریب چار نوجوانوں کا ایک حلقہ نظر آیا جو سب کے سب خوب صورت، چکمتے دمکتے چہروں، اعلیٰ نسب اور کھلی کھلی معطر آستینوں والے تھے۔ جو اپنے سفید کپڑوں سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے ایسے لگ رہے تھے کہ گویا وہ مسجد حرام کے کبوتر ہیں۔
درحقیقت یہ چار نوجوان حضرت ابن زبیرؓ، ان کے بھائی اور عبد الملک بن مروانؒ تھے۔
ان کے درمیان نرم نرم لہجے اور پست آواز میں گفتگو ہورہی تھی کہ ان میں سے ایک کہنے لگا:
’’آؤ ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی پسند اور خواہش کی چیز مانگے! یہ کہنا ہی تھا کہ یہ نوجوان خیالات کی وسیع دنیا میں گم ہوگئے اور ان کی عقلیں امیدوں کے سبز باغات کی سیر کرنے لگیں۔‘‘
تو حضرت ابن زبیرؓ کہنے لگے: ’’میری تمنا اور چاہت یہ ہے کہ میں ’’ملک حجاز‘‘ کا مالک بن جاؤں اور خلافت مجھے مل جائے۔‘‘
اور ان کے بھائی مصعب کہنے لگے: ’’میری تمنا اور خواہش یہ ہے کہ میں ’’عراقین‘‘ یعنی کوفہ اور بصرہ کا والی بن جاؤں اور خلافت مجھے مل جائے۔‘‘
عبدالملک بن مروان کہنے لگے: ’’اگر آپ دونوں اسی پر صبر اور قناعت کرتے ہیں تو اچھی بات ہے، البتہ میری چاہت تو یہ ہے کہ پوری دنیا کی بادشاہت مجھے مل جائے اور میں معاویہ بن ابی سفیانؓ کے بعد تمام مسلمانوں کا خلیفہ بن جاؤں۔‘‘
جب یہ تینوں اپنی اپنی تمناؤں کا اظہار کرچکے تو انہوں نے دیکھا کہ عروہؒ بن زبیرؓ بالکل خاموش ہیں اور ابھی تک انہوں نے اپنی کسی خواہش اور تمنا کا اظہار تک نہیں کیا، اس
وجہ سے ان سب نے ان کی طرف متوجہ ہو کر کہا:
’’اے عروہ! تمہاری کیا چاہت ہے؟‘‘
تو حضرت عروہ بن زبیرؒ کہنے لگے: ’’حق تعالیٰ تمہاری دنیوی تمناؤں اور چاہتوں میں برکت ڈالے، بہرحال میری تمنا یہ ہے کہ میں ایک ایسا عالم باعمل بن جاؤں کہ لوگ مجھ سے قرآن و حدیث اور دین کے احکام سیکھیں اور پھر خدا کی رضا مندی سے مجھے آخرے میں کامیابی ملے اور جنت کا مستحق بن جاؤں۔‘‘پھر زمانہ گزرتا رہا، یہاں تک کہ ایک دن ایسا آیا کہ یزید بن معاویہ کی وفات کے بعد لوگ حضرت ابن زبیرؓ کی خلافت پر ان سے بیعت ہوئے اور حجاز، یمن اور عراق پر ان کی حکومت قائم ہوگئی۔ پھر کعبہ کے قریب اسی جگہ میں حضرت ابن زبیرؓ کو شہید کردیا گیا، جہاں بیٹھ کر انہوں نے اپنی اس تمنا اور خواہش کا اظہار کیا تھا۔حضرت مصعب بن زبیرؒ کا قصہ یہ ہوا کہ وہ چوں کہ اپنے بھائی حضرت ابن زبیرؓ کی طرف سے عراق کے والی مقرر کئے گئے تھے، تو وہ بھی اپنی ولایت اور حکومت کا دفاع کرتے ہوئے وہاں شہید ہوگئے۔
عبد الملک بن مروان یزید کی وفات کے بعد مسلمانوں کے خلیفہ بنے اور حضرت ابن زبیرؓ اور ان کے بھائی حضرت معصب بن زبیرؒ کے شہید ہو جانے کے بعد، تمام مسلمانوں نے اتفاق اور رضامندی کے ساتھ ان کی خلافت کو تسلیم کرلیا اور پھر وہ اپنے زمانے کے بادشاہوں میں سب سے بڑے بادشاہ شمار ہونے لگے۔یہ تو ان تین حضرات کی تمناؤں کی مختصر سی داستان تھی، اب حضرت عروہ بن زبیرؒ کی تمنا کا کیا بنا؟
تو آیئے ان کا قصہ شروع سے پڑھتے ہیں۔ پڑھنے سے پہلے آپ دعا کر لیجئے، خدایا! ہمیں بھی حضرت عروہ بن زبیرؒ کی طرح دین کی خدمت کیلئے دین کو ساری دنیا میں پھیلانے کیلئے قبول فرمالے۔ (جاری ہے)
( باقی صفحہ 4بقیہ نمبر5)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More