قسط 13
حضرت عروہؒ بن زبیرؓ حضرت عمر فاروقؓ کی شہادت سے ایک سال قبل مسلمانوں میں سب سے زیادہ شریف اور اونچے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حضرت زبیر بن العوامؓ نبی پاکؐ کے حواری (خاص ساتھی) اور اسلام میں پہلے شخص تھے، جس نے اسلام کی حفاظت کے لئے تلوار سونت لی تھی اور ان دس حضرات ’’عشرہ مبشرہ‘‘ میں سے ایک تھے، جن کو دنیا میں جنت کی خوشخبری دی گئی تھی۔
ان (عروہ بن زبیرؒ) کی والدہ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ تھیں، جو ’’ذات النطاقین‘‘ کے لقب سے مشہور تھیں۔ اور ان کے نانا حضرت ابو بکر صدیقؓ تھے، جو نبی پاکؐ کے خلیفہ اور غار کے ساتھی تھے۔ ان کی دادی حضرت صفیہ بن عبد المطلبؓ تھیں، جو رسول اقدسؐ کی پھوپھی تھیں۔ ان کی خالہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ تھیں، جن کی تدفین کے وقت خود یہی عروہ ان کی قبر میں اترے تھے اور لحد کو اپنے ہاتھوں سے درست کیا تھا۔ کیا آپ کے خیال میں اس سے بڑھ کر اور کوئی اعلیٰ نسب ہو سکتا ہے؟ اس سے بڑھ کر اور کوئی شرف ہو سکتا ہے سوائے ایمان اور اسلام کے شرف کے؟
تحصیل علم:
حضرت عروہؒ نے کعبہ معظمہ کے پاس حق تعالیٰ سے جس چیز کی تمنا کی تھی، اس کو حاصل کرنے کے لئے وہ مکمل طور پر طلبِِِِِ علم کی طرف متوجہ ہوئے۔ نبی پاکؐ کے جو صحابہؓ اس وقت موجود تھے، ان کو اپنے لئے غنیمت سمجھ کر ان کے گھروں پر جانے لگے۔ ان کے پیچھے نماز پڑھتے اور ان کی مجالس ڈھونڈ کر ان میں شریک ہوتے۔ یہاں تک کہ انہوں نے حضرت علیؓ بن ابی طالب، حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف، حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت ابو ایوب انصاریؓ، حضرت اسامہ بن زیدؓ، حضرت سعید بن زیدؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت ابن عباسؓ اور حضرت نعمان بن بشیرؓ جیسے جلیل القدر صحابہ کرامؓ سے احادیث نقل کیں اور اپنی خالہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے علم دین کا ایک بڑا حصہ سیکھا۔
پھر وہ وقت بھی آیا جب حضرت عروہ بن زبیرؒ مدینہ منورہ کے (مسائل دینیہ جاننے والے سات بڑے علمائ) میں سے ایک شمار ہونے لگے اور لوگ اپنے دین کے معاملات میں ان کی طرف بھاگے بھاگے چلے آتے تھے اور نیک صالح حکمران بھی لوگوں کے دینی اور دنیاوی معاملات نمٹانے میں ان سے مدد لیا کرتے تھے۔
ان حکمرانوں میں سے ایک نیک و صالح حکمران حضرت عمر بن عبد العزیزؒ بھی ہیں کہ جب وہ ولید بن عبدالملک کی طرف سے مدینہ منورہ کے گورنر بن کر آئے تو لوگ ان کے پاس آئے اور ان کو سلام کیا، جب حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے ظہر کی نماز پڑھی تو مدینہ کے دس فقہاء (علماء) کو بلایا، ان میں سے پہلے حضرت عروہ بن زبیرؒ تھے۔
جب وہ علماء ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے ان علماء کو مرحبا (خوش آمدید) کہا اور بہت عزت و احترام کے ساتھ اپنے پاس بٹھایا۔ پھر خدا تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد کہنے لگے:
ترجمہ: ’’میں نے آپ حضرات کو ایک ایسے کام کے لئے بلایا ہے کہ جس میں آپ کو اجر و ثواب ملے گا اور آپ حضرات حق بات پر میرے مدد گار بنیں گے، میں ہر گز یہ نہیں چاہتا کہ کوئی بھی کام، کوئی بھی معاملہ آپ کے مشورے اور رائے کے بغیر کروں، اگر آپ کسی کو کسی پر زیادتی کرتے ہوئے دیکھیں یا آپ کو میرے لوگوں میں سے کسی کے ظلم اور زیادتی کی خبر پہنچے، تو میں آپ حضرات کو خدا کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ آپ مجھے اس کے بارے میں اطلاع دیں۔
پھر حضرت عروہ بن زبیرؒ نے خدا تعالیٰ سے گورنر کے لئے خیر اور ہدایت کی دعا فرمائی۔
تلاوت میں مشغولیت:
حضرت عروہ بن زبیرؒ نے علم اور عمل کو یک جا جمع کیا ہوا تھا، وہ (دن کی) روشنیوں میں روزہ رکھتے اور (رات کی) تاریکیوں میں اپنے رب کے سامنے کھڑے رہتے تھے، ان کی زبان ہر وقت خدا تعالیٰ کی یاد سے تر رہتی تھی اور قرآن مجید کو ہر وقت اپنے پاس رکھتے اور اس کی تلاوت میں مشغول رہتے تھے۔
وہ روزانہ قرآن مجید کے ایک چوتھائی حصے کی تلاوت دیکھ کر کرتے اور پھر رات کو نماز میں کھڑے ہو کر زبانی اس کی تلاوت فرماتے۔
یہ معمول ان کا ابتداء جوانی سے وفات کے دن تک رہا، اس دوران سوائے ایک مرتبہ کے کسی کو نہیں معلوم کہ اس میں ناغہ ہوا ہو، وہ بھی ایک عجیب وقعہ ہے، جس کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔(جاری ہے)
Prev Post
Next Post