اسلامی نظریاتی کونسل کے افسران کام چور تھے

0

قسط نمبر 13
اقبال احمد خان کا نام شاید آج کی نسل نہ جانتی ہو۔ لیکن پرانے لوگ انہیں اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز آل انڈیا مسلم لیگ سے کیا۔ تب قائد اعظمؒ مسلم لیگ کے سربراہ تھے۔ آنے والے برسوں میں اقبال احمد خان مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے اور کئی دہائیوں تک یہ ذمہ داری انجام دیتے رہے۔ وہ لیاقت علی خان سے لے کر بے نظیر تک پاکستان کے تمام اہم واقعات کے چشم دید گواہ تھے۔ سر تا پا پاکستانی اور مسلم لیگی تھے۔ دبنگ۔ نڈر۔ دیانت دار اور بلا کے ذہین۔ اقبال احمد خان سے منیر احمد منیر نے ایک تفصیلی انٹرویو کیا تھا۔ جو کتاب ’’اس نے کہا‘‘ کے نام سے 1996ء میں شائع ہوا۔ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کیلئے اس کتاب کے اقتباسات پیش کئے جا رہے ہیں۔ (ادارہ)۔
س: مولانا کوثر نیازی سے جو پہلے چیئرمین سلامی نظریاتی کونسل گزرے ہیں؟
ج: جسٹس حلیم نے دفتر بنایا تھا کراچی۔ تین مہینے بعد میٹنگ ہوتی تھی کونسل کی، تب وہ یہاں آتے تھے۔ دفتر والے بنا کے دے دیتے تھے مسودہ۔ میں نے ایک پڑھا ہے، کچھ دیر ہوئی۔ میرے خلاف اخبار میں نہ آجائے۔ یہ جو ہے نا پیوند کاری، کونسل کی رپورٹ جو پاس ہو چکی ہے، اس میں ہے کہ پیوندکاری جائز ہے، لیکن ڈاکٹر متقی ہونا چاہئے۔ میں نے انہیں بلایا، بندوں کو، کہ فرض کریں جی ٹی روڈ پر ایکسیڈنٹ ہوجاتا ہے۔ ایک بندہ زخمی ہوجاتا ہے۔ فوری پیوند کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ڈاکٹر عیسائی ہے۔ بندے کو مار دیں گے یا پیوندکاری کرائیں گے۔ یہ رپورٹیں بنا دینی۔ حلیم صاحب نے کراچی سے آجانا۔ میٹنگ کرنی۔ دوسرے دن کراچی واپس چلے جانا۔ دفتر وہاں بنا رکھا تھا۔ عملہ بھی اپنے سپریم کورٹ کا پی اے، شی اے لے گئے تھے کراچی۔ یہ کونسل کا حال تھا۔ I AM THE ONLY CHAIRMAN (میں واحد چیئرمین ہوں) جو ڈیلی سویرے جاتا ہے اور انہیں بڑی تکلیف ہے ہمارے اسٹاف کو۔
س: اس لئے کہ گھر میں جو دفتر نہیں بنایا۔
ج: دفتر گھر میں نہیں بنایا۔ دفتر جاتا ہوں۔ انہیں تکلیف ہے۔ کسی سے چٹھی ٹائپ کرائی، SPELLING (ہجے) غلط۔ ’’بھئی کتنا عرصہ ہوا‘‘۔ ’’جی میری بیس سال کی سروس ہے‘‘۔ ’’جی میری اٹھارہ سال کی سروس ہے‘‘۔ میں کہتا ہوں آپ کو کسی نے بتایا نہیں کہ فلاں لفظ کے اسپیلنگ کیا ہیں؟ چھوٹے چھوٹے لفظ ہیں۔ اگر میں اسے کہتا ہوں کہ مجھے ٹیلی فون ملا دے لاہور، منیر احمد خاں کے ساتھ۔ تین گھنٹے بعد پوچھا: ’’وہ ٹیلی فون نہیں ملایا‘‘۔ جواب ملے گا: ’’ جی وہ مل نہیں رہا‘‘۔ ایک ٹیلی فون میری میز پر ہے۔ وہ میں نے خود ہی ملا کے بات بھی کرلی ہے۔ پھر پوچھا: ’’منیر خاں سے ٹیلی فون نہیں ملایا‘‘۔ ’’جی وہ مل نہیں رہا‘‘۔ میں نے کہا، آپ سے کسی نے کام ہی نہیں کرایا۔ سارے ریسرچ ڈپارٹمنٹ میں، جو ہمارا ریسرچ ڈپارٹمنٹ ہے، اس میں اصل جو چیز ہے پانچ ریسرچ افسر ہیں۔ پانچ میں سے تین کو لفظ ریسرچ ڈپارٹمنٹ کے انگریزی کے اسپیلنگ نہیں آتے۔ ایک ریسرچ افسر آپ نے سنا ہوگا۔ وہاں مشہور و معروف ہے، ڈاکٹر قاری محمد یونس۔ وہ ہمارا ریسرچ افسر ہے۔ وہ سال میں نو ماہ ڈیپوٹیشن پر رہتا ہے۔ اچھا جی چھٹی۔ چھٹیاں گورنمنٹ بہت دیتی ہے۔ میں حیران ہوں کہ اتنی چھٹیاں سرکاری ملازموں کو۔ اس کی پانچ سو دن کی چھٹی جمع ہے۔ اس کی پانچ ہزار دن کی چھٹی جمع ہے۔ درخواست آئے گی، میں تبلیغ کی خاطر امریکہ جارہا ہوں۔ وہ چھٹی۔ امریکہ چلا گیا۔ لفظ انگریزی کا ایک نہیں آتا، تبلیغ انہوں نے کیا کرنی ہے۔ میں تبلیغ کی خاطر جارہا ہوں جی۔ پچھلے سال، اپنے چیئرمین بننے سے پہلے کا میں نے حساب لگایا۔ سال میں ساڑھے نو ماہ چھٹی۔ اور وہ لندن گیا ہے۔ وہاں جاکے لڑائیاں کرائیں۔ شیعہ سنی یا سنی اہلحدیث۔ مال اکٹھا کیا اور واپس آگئے۔ پھر میں عمرہ کرنے جارہا ہوں۔ ایک مہینے کی چھٹی چاہئے۔ عمرے کی بجائے سیدھا لندن۔ وہاں سے جب چھٹی ختم ہوگئی۔ اب میں یہاں سے فارغ ہوگیا ہوں۔ درخواست لکھی، اب میں عمرے کے لئے جارہا ہوں۔ اب آگئی چٹھی کہ بنگلہ دیش جانا ہے، قرأت کانفرنس میں۔ میں نے کہا، آپ بغیر پوچھے پھرتے رہتے ہیں۔ ’’جی منسٹری مذہبی امور نے نامزد کیا ہے‘‘۔ میں نے سیکریٹری مذہبی امور سے پوچھا، آپ مامے لگتے ہیں۔ اگر آپ نے بھیجنا ہے تو مجھے بتائیں۔ سیکریٹری مذہبی امور کہتا ہے، مجھے تو پتہ ہی نہیں۔ دفتر کے سیکشن افسر سے مل ملا کے کرلیا۔ اب جناب حج کا سیزن آگیا۔ میں نے چٹھی لکھی منسٹر کو کہ ساری منسٹری کو مدعو کرو۔ غریب غربا حج کر آئیں۔ انہوں نے کہا، ہمیں پانچ بندوں کے نام بھیجو۔ میں نے دو کلرک، اس طرح کے آدمیوں کو بھیج دیا۔ یہ قاری یونس صاحب جناب والا منسٹری میں جاکے باقاعدہ آرڈر کروا لائے بطور لیژان افسر حج۔ 80 ریال یومیہ ملا کریں گے۔ دفتر والوں نے انکار کردیا ریلیز کرنے سے کہ وہ جُو گرم ہوتا ہے۔ میں نے بڑا سوچا کہ اس نے حج پر جانا ہے۔ آرڈر کرا لایا ہے۔ ناں کروں گا تو پروپیگنڈا کرے گا۔ میں چپ کر گیا۔ مجھے کہتا ہے، آپ حج پر آئیں نا۔ اس وقت میرا پروگرام نہیں تھا حج پر جانے کا۔ وہ تو اللہ نے بنادیا۔ اللہ میاں بھی بڑی شفیق ذات ہے۔ یونہی مجھے ٹکر گیا ہمارا لا سیکریٹری۔ مجھے خیال آیا۔ میں نے کہا، سیکریٹری صاحب، آپ مجھے اور میری بیوی کو حج پر نہیں بھیج سکتے۔ میں ٹکٹ شکٹ نہیں مانگتا۔ میں چاہتا ہوں تھوڑی بہت سہولت مل جائے۔ اس نے کہا، واپس آکے فلاں تاریخ کو لے لینا۔ ہم نے واپس آکے لے لیا۔ ہمیں اللہ میاں نے بھیج دیا۔ وہ قاری صاحب وہاں مجھے ملے ہی نہیں کہ کہاں مر گیا۔
س: ان لوگوں کو کوثر نیازی نے بگاڑا ہوگا۔
ج: کوثر نیازی کا ٹائپ اور تھا۔ اس نے پرائم منسٹر سے دو کروڑ مانگا تھا۔ ساتھ مانگی تھی پجارو، کہ میں مولویوں کو قابو کروں گا۔ یہ رضامند ہوگئیں، لیکن اسے اللہ میاں نے بلالیا۔ ہمارے پاس نہیں تھے پیسے۔ ہماری کونسل کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ میں میٹنگ بلا سکوں۔ میں نے بھیجی فائل پرائم منسٹر کو کہ مجھے اتنے پیسے دے دیں کہ میں میٹنگیں بلاسکوں۔ ساتھ میں نے انہیں روا روی میں کہا کہ سنا ہے آپ مولوی کوثر نیازی کو دو کروڑ اس کام کے لئے دے رہے تھے۔ مجھے کہتی ہیں، آئیڈیا تو اچھا ہے، اگر مولوی قابو ہوجائیں۔ میں نے کہا، وہ بندہ اور تھا۔ میں یہ لینے دینے کا کام کرتا نہیں۔ مجھے پانچ چھ لاکھ روپیہ دے دیں کہ میٹنگیں تو بلالوں۔ مولوی صاحب کا تو اپنا سلسلہ تھا۔
س: آپ کے یہ عہدہ سنبھالنے پر جماعت اسلامی والوں نے بھی آپ کے خلاف بیان دیا تھا۔
ج: میرے خلاف انہوں نے بیان دیا تھا۔ میں نے کہا، جو مرضی کہتے رہیں۔ میں گیا انہیں ملنے کے لئے۔ رحمت الٰہی تھے، منور حسن تھے، سوائے قاضی صاحب کے۔ اسلم سلیمی میرا کلاس فیلو تھا۔ ذاتی بھی بندے کی سلام دعا ہوتی ہے۔ روٹی شوٹی کھائی۔ بڑی خاطر تواضع کی انہوں نے۔ میں چلا آیا۔ اگلے دن میں نے اخبار میں پڑھا، کہ وہ ازخود آیا تھا۔ ہم نے اس پر واضح کر دیا تھا کہ آپ کی بیک گراؤنڈ اسلامی نہیں ہے۔
س: کیا کہا تھا انہوں نے۔
ج: میں نے انہیں کہا، گل سنو! میں نے کبھی آپ کے سامنے دعویٰ کیا ہے کہ میں مفتی اعظم ہوں۔ میں گنہگار سا بندہ ہوں۔ میں آپ سے ایک سوال پوچھتا ہوں کہ کوثر نیازی آپ میں سے گیا ہے نا۔ کہنے لگے ’’ہاں‘‘۔ میں نے کہا، کوثر نیازی میں وادھا کیا تھا۔ کوئی دو دو سوتر لمبی داڑھی تھی اس کی اور تو کوئی وادھا نہیں تھا۔ میں نے کہا، آپ نے اس کے خلاف تو بیان نہ دیا، میرے خلاف بیان دے دیا۔ انہوں نے شروع کر دیئے اس کے مراتب بیان کرنے۔ میں نے کہا، آپ ساری تاریخ نکال لیں۔ اس کے آدھے سے زیادہ جو چیئرمین ہیں، وہ بغیر داڑھی کے آئے ہیں۔ یہ تو زندہ ہیں جسٹس حلیم۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More