کشمیر میں سب زیادہ بولا جانے والا لفظ ہے ’’آزادی‘‘!
’’آزادی‘‘ جس کے بارے میں یونان کے عظیم شاعر اور ناول نگار کازانت زاکس نے لکھا تھا:
’’آزادی‘‘ میں اس لفظ کو اس طرح کاماز میں رکھتا ہوں، جس طرح جنگلی بیل کو سینگوں سے پکڑ کر قابو کیا جاتا ہے۔
آزادی کے اس لفظ کے بارے میں کازانت زاکس نے یہ بھی لکھا تھا کہ:
’’اے آزادی! میں جانتا ہوں کہ تمہاری طرف شاہراہیں نہیں، بلکہ تنگ و تاریک راستے جاتے ہیں۔‘‘
وہ راستے جن پر گوریلے سردیوں اور گرمیوں میں سفر کرتے رہتے ہیں۔ پہاڑوں میں پیچ و خم والے وہ راستے جن پر پیدا ہونے والی گھاس کی مہک کو آزادی کے مسافر اچھی طرح جانتے ہیں۔ جن سے اڑتی ہوئی دھول ان انسانوں کو کبھی نہیں بھولتی، جو منزلوں سے زیادہ راستوں کے عاشق ہوتے ہیں۔
اور کازانت زاکس نے ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے: ’’میرا والد مجھے گھر سے باہر لے گیا۔ باہر چار لاشیں رسیوں میں لٹک رہی تھیں۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا ان کو کس نے پھانسی دی ہے؟ بابا بولا ’’آزادی نے‘‘ پھر میرے والد نے مجھے گود میں اٹھایا اور میرا چہرہ لٹکتی ہوئی لاشوں کے پیروں کے قریب لے آیا اور مجھ سے کہنے لگا: ’’ان کو چومو‘‘ اس نے زبردستی میرے ہونٹ لاشوں کے پیروں پر رکھ دیئے۔ میرے ہونٹوں نے ان پیروں کی کھردری چمڑی کو محسوس کیا۔ میرے والد نے مجھے گود سے اتارا۔ میں بہت خوفزدہ تھا۔ میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ میرے والد نے میرے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا ’’اب تم اس کے عادی ہو جاؤ گے!‘‘
اگر کازانت زاکس کی کتابیں کشمیری زباں میں ترجمہ کی جائیں تو کشمیری ان کتابوں میں اپنی زندگی اور جدوجہد کے عکس دیکھ سکیں گے۔
کشمیر کے لوگ ستر برس سے ایسی زندگی جی رہے ہیں جیسی انقلابی ناولوں میں پیش کی جاتی ہے۔ جیسی زندگی کی جھلک اس شاعری میں ملتی ہے، جو شاعری آتش فشاں جیسے دل سے لاوا بن کر بہتی ہے۔ جیسی شاعری نرودا کی نظموں سے جھانکتی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ جہاں جدوجہد ہوتی ہے وہاں کتابیں پڑھی جاتی ہیں، مگر میں نہیں جانتا کہ مقبوضہ کشمیر میں کون سی کتابیں پڑھی جا رہی ہیں؟ جب کہ مجھے اس بات پر سو فیصد یقین ہے کہ کشمیر کے لوگ انقلابی شاعری جی رہے ہیں۔ شاعری کرنا اور شاعری پڑھنا اچھی بات ہے، مگر شاعری جینا بہت بڑی بات ہے۔
کشمیر جہاں ہر روز گولی چلتی ہے۔ کشمیر جہاں ہر روز نئی قبر بنتی ہے۔ کشمیر جہاں شہید بچوں کی پیشانی کو بوڑھے والدین کے ہونٹ آخری بار چومتے ہیں۔ کشمیر جہاں آنکھوں سے صرف آنسو نہیں بہتے، بلکہ ان آنکھوں میں خواب بھی رہتے ہیں۔ آزادی کے خواب۔ اپنی مرضی سے جینے کے خواب! مرضی سے جینے کے لیے مرنے والوں پر ترس مت کھاؤ۔ ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم ان پر ترس کھائیں، جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جیتے ہیں۔ ہم جو بہت بزدل ہیں، ہم کس طرح ترس کھا سکتے ہیں ان انسانوں پر، جن کے بچے پیدا ہوتے ہی آنسو گیس کی بو بھری ہوا میں سانس لیتے ہیں۔ ہم ان انسانوں پر کس طرح ترس کھا سکتے ہیں، جو لاکھوں فوجیوں کے گھیرے میں ڈرکر جینے کے بجائے شیروں کی طرح دھاڑ کر آگے بڑھتے ہیں؟
وہ لوگ بہت عظیم ہیں، جن کی چار نسلوں نے غلامی کی کوئی صورت قبول نہیں کی۔ اگر کشمیر کی قدیم لوک شاعری پڑھی جائے تو اس میں کشمیر کے لوک شاعر اپنے بلند پہاڑوں اور پہاڑوں پر کھڑے بلند درختوں پر فخر کرتے تھے۔ مگر اب کشمیر کے بلند پہاڑ اور ان پہاڑوں پر جھومتے ہوئے چنار ان انسانوں پر فخر کرتے ہیں، جنہوں نے کسی پہاڑ کی چوٹی کو شرمندہ نہیں کیا۔ ان پہاڑوں اور ان چناروں کو اس بات کی بہت خوشی ہے کہ ان کے لوگوں کے قد ان سے بھی بلند ہیں۔ وہ لوگ جو ٹارچر سیلوں میں نہیں ٹوٹتے۔ وہ لوگ جو سرکاری لالچوں پر نہیں گرتے۔ وہ لوگ جو نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی وعدوں کو وفا کرنے کے لیے زندگی قربان کر دیتے ہیں۔
وہ لوگ جن کے گھروں کے قریب ایسے قبرستان ہیں، جن میں صرف بیمار اور بوڑھے لوگ دفن ہوں۔ ان قبرستانوں میں وہ پھول مدفون ہیں، جن پھولوں کی پتیوں پر زندگی کی شبنم کے قطرے بعد از مرگ بھی موتیوں کی طرح چمکتے ہیں۔
عالمی میڈیا کو صرف کشمیر کے گھروں کا نہیں، بلکہ ان قبرستانوں کا پتہ بھی پوچھنا چاہئے، جن قبروں پر دن کو تتلیاں اور رات کو جگنو پہرہ دیتے ہیں۔ ان قبرستانوں میں وہ نوجوان مدفون ہیں، جن کے سینے میں انفرادی محبت سے زیادہ اجتماعی محبت کا شعور تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ کشمیر کے حریت پسندوں کو برین واش کرکے لڑایا جاتا ہے، وہ اس استاد کے بارے میں کیا کہیں گے جس نے کلاس میں لیکچر دیا۔ پھر گھر آیا۔ پھر اس نے کلاشنکوف کو اٹھایا۔ پھر اس نے اپنے خون سے آزادی کے ایسے انمٹ الفاط تحریر کیے، جن کو مون سون کی بارشیں بھی نہیں مٹا سکتیں۔
تاریخ نشیب و فراز کی عجیب داستان ہے۔ اس وقت پوری دنیا اس حقیقت کا افسوس کے ساتھ اظہار کر رہی ہے کہ سیاست کے میدان میں وہ سرکشی اور سربلندی نہیں رہی، جو گزشتہ صدی کے ساتویں عشرے کی پہچان تھی۔ وہ ایسا دور تھا، جب مغرب میں بھی انسانی آزادی کی تحریکیں شدت کے ساتھ چلتی تھیں، مگر ریڈ آرمی اور بلیک پینتھر نامی ساری مشعلیں بجھ گئیں۔ وقت کے ساتھ نہ صرف مغرب بلکہ افریقہ اور لاطینی امریکہ میں بھی سامراج مخالف سیاسی مزاحمت کی آگ آہستہ آہستہ بجھ گئی۔ ایشیا جو کبھی ویتنام اور فلسطین کی حریت پسندی کا امین تھا، وہ اس وقت اگر فخر کر سکتا ہے تو اپنے افغان اور کشمیری بیٹوں پر! دھرتی کی اس اولاد پر، جس نے ابھی تک اپنے تن بدن میں لگنے والے زخموں کو شمار نہیں کیا۔ وہ اب تک ایک جنون کی کیفیت میں جنگ کر رہے ہیں۔ وہ جو سراپا جنگ ہیں۔ جو اس بات پر نہیں سوچتے کہ یہ جنگ کب تک جاری رہے گی۔ وہ جو آخری مجاہد اور آخری گولی والے اصول کے پابند ہیں، ان کے خلاف امریکہ اور بھارت ہارتی ہوئی جنگ لڑتے ہوئے تھک چکے ہیں۔
ہم افغانستان میں جاری مزاحمت پر بہت کچھ لکھیں گے، مگر اس وقت ہمارے سامنے وہ کشمیر ہے، جس نے اپنے غم کو اپنی طاقت میں تبدیل کیا ہے۔ وہ کشمیر جس کی وادیاں آزادی کے متوالوں کی وجہ سے مسرور ہیں۔ وہ کشمیر جس کے بہادر بیٹوں نے درد سے بازو چھڑالیا ہے۔ وہ کشمیر جس کی بیٹیوں نے سربلندی سے جینا سیکھ لیا ہے۔ وہ کشمیر جو آزادی کی طرف بڑھنے والا بے خوف قافلہ ہے۔ وہ کشمیر جس نے اب تک عالمی برادری کو نہیں بلایا اور اپنے زخموں کی نمائش نہیں کی۔ وہ کشمیر جس کی ثقافت میں اب مزاحمت اس طرح شامل ہو گئی ہے، جس طرح شیر میں شکر شامل ہوکر گھل جاتی ہے۔ اب کشمیر صرف ایک خطے کا نام نہیں ہے۔ اب کشمیر ایک نعرہ ہے۔ ایک صدا ہے۔ ایک خواب اور ایک حقیقت ہے۔ اب کشمیری قابل رحم نہیں، قابل عزت ہیں۔ جو قوم اپنی آزادی کے لیے قربانی دیتی ہے، وہ قابل فخر ہو جاتی ہے۔ کشمیری قابل فخر قوم ہے۔
اس غلامی کے دور میں جب دھرتی کا منظر میلی جھیل جیسا ہو۔ اس وقت کشمیر اس جھیل میں کھلا ہوا آزادی کا کنول ہے۔ کشمیر صرف اپنے لیے پاکیزہ حسن کا سرچشمہ نہیں، بلکہ پوری دنیا کے لیے وہ حسن ہے جو حوصلے کی وجہ سے جنم لیتا ہے۔ کشمیر ایک پھول ہے، جس کو کوئی بھی معصوم حسینہ اپنے بالوں میں سجا سکتی ہے۔ کشمیر انگارہ ہے، اس انگارے کو بھارت زیادہ دیر تک اپنی مٹھی میں نہیں رکھ سکتا۔ بھارت کو اس بات کا خوف ہے کہ کہیں اس کی ریاستی انا کشمیر میں دھول نہ چاٹے۔ چین بھی اس منظر کو دلچسپی سے دیکھ رہا ہے اور سوچ رہا ہے کہ جو ملک کشمیر کے نہتے باغیوں سے نہیں جیت سکتا، وہ ملک ساؤتھ ایشیا کی سپر پاور بننے کا سپنا کس طرح دیکھ سکتا ہے؟
کشمیر عالمی قوتوں کے لیے ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ کشمیر میں بھارتی تشدد کی وجہ سے انسانی حقوق کی بات کرنے والے ادارے مجبور ہوکر تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بات صرف ایمنسٹی انٹرنیشنل تک محدود نہیں ہے۔ اب اقوام متحدہ بھی اپنے آپ پر ضمیر کا بڑھتا ہوا بوجھ محسوس کرنے لگا ہے۔ بھارت کشمیر کے حوالے سے وہ کمزور پڑ گیا ہے۔ مگر وہ ایسے وقت کے انتظار میں ہے جب وہ کشمیری حریت پسندوں سے اپنے مفاد کے مطابق مذاکرات کرسکے، مگر جو لوگ بارشوں میں بندوق اٹھا کر ایک وادی سے دوسری وادی میں چلتے ہیں۔ جو لوگ بخار میں تپتے ہوئے بھی مورچے سے مسلسل گولیاں برساتے ہیں۔ جو لوگ برسوں سے گھروں سے دور بستے ہوئے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ان کے بچے کتنے بڑے ہوگئے ہوں گے؟ وہ لوگ سراپا جنگ ہو جاتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے آزادی ایک سیاسی مطالبہ نہیں، بلکہ زندگی کا مکمل آدرش ہوتا ہے۔ وہ لوگ آزادی سے اس طرح پیار کرتے ہیں، جس طرح ایک بچہ اپنی ماں کی نرم اور گرم آغوش سے پیار کرتا ہے۔
ایک کرائے کا فوجی پھر بھلے وہ بھارت کا آرمی چیف کیوں نہ ہو! وہ اس مقدس کیفیت کو محسوس نہیں کر سکتا کہ جب ایک انسان آزادی کا احساس بن جاتا ہے!
آزادی کے متوالے انوکھے انسان ہوتے ہیں۔ وہ آزادی کے لیے اس طرح لڑتے ہیں، جس طرح رومانوی ادب کے کردار عشق کرتے ہیں!!
وہ جو کہتے ہیں:
’’اور ابھرکر آگ سے آزادی بھڑکی
دشمن کے سر پر بن کر بجلی کڑکی
دھرتی میں دھڑکی، آزادی کی آرزو‘‘
آزادی کی وہ آرزو کشمیر کی پہچان ہے!!!
Next Post