لیفٹیننٹ کرنل (ر) عادل اختر
ہر مسلمان طہارت کو نصف ایمان جانتا اور مانتا ہے اور صفائی کی اہمیت پر اسلام میں بہت زور دیا گیا ہے، مگر عمل کی توفیق خدا نے غیروں کو دی، جس ملک اور معاشرے میں صفائی زیادہ ہوگی، وہاں بیماریاں کم ہوں گی۔ ہر ملک اور معاشرے میں ہر روز لاکھوں ٹن کوڑا اور کرکٹ پیدا ہوتا ہے، مگر انہوں نے اس کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ یہ صرف ایک ہمارا ملک ہے، جہاں شہروں کے بازاروں، گلیوں میں یہ کوڑا کرکٹ مہینوں پڑا رہتا ہے۔ اس میں سے بدبو اٹھ کر پورے ماحول کو متعفن بنا دیتی ہے۔ اس کوڑے پر کوے اور چیلیں منڈلاتی رہتی ہیں۔ کتے اور بلیاں اسے نوچتی بھنبھوڑتی رہتی ہیں۔ غریب لوگ اس میں سے کام کی چیزیں ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی اس قسم کے بیانات آتے ہیں کہ کراچی سے کوڑا اٹھانے کا ٹھیکہ ایک چینی کمپنی کو دیا جا رہا ہے، جس پر کئی ارب روپے خرچ ہوں گے۔ پھر خاموشی طاری ہو جاتی ہے اور ملک کا سب سے بڑا شہر کوڑا کرکٹ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
مہذب ممالک اس کوڑے کا کیا کرتے ہیں۔ میں نے پڑھا کہ سویڈن کوڑے سے بجلی پیدا کرتا ہے اور کچھ کوڑا، آس پاس کے ممالک کو بیچ دیتا ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ کوڑا بیچا بھی جا سکتا ہے۔ لاہور میں ایک حوصلہ مند شہری نے یہ تجربہ کیا کہ شہر سے باہر کوڑا کرکٹ جمع کیا۔ ہر شخص کو اجازت تھی کہ کوڑے سے اپنے کام کی چیز چن لے۔ معمولی معاوضے کے عوض… اور کسان، اس کوڑے کو بطور کھاد خرید لیتے تھے۔ پاکستان کے شہروں سے کوڑا اس لیے نہیں اٹھتا کہ بلدیاتی ادارے نہیں ہیں۔ اگر ہیں تو کرپٹ ہیں۔ پاکستان کے تمام شہر بالخصوص کراچی، کوڑستان بن گیا ہے۔ ایک پرانا فلمی گانا تھا۔ جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں۔ کوڑے پر نظر کرتا ہوں۔ ابن انشا مرحوم نے لکھا کہ ہم دس سال ولایت میں گزار کر کراچی واپس آئے تو اپنے عزیز دوست طٰہ صاحب سے ملنے گئے، ہم ان کے گھر کا پتہ بھول گئے تھے، مگر کوڑے کے بہت بڑے ڈھیر سے ان کے گھر کا سراغ مل گیا۔
یورپ اور امریکہ کے دورے سے جو لوگ واپس آتے ہیں، وہ وہاں کی صفائی کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ حال ہی میں معروف صحافی غازی صلاح الدین، آذربائیجان گئے۔ آذربائیجان کیسپئن سمندر کے کنارے ایک چھوٹا ملک ہے، اس کے دارالحکومت کا نام باکو ہے۔ میں نے چار دن آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں گزارے۔ بہت مزہ آیا۔ تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔ ملک کے عوام تعلیم یافتہ ہیں۔ آج کل بڑی تعداد میں پاکستانی آذربائیجان جا رہے ہیں، کیونکہ ویزہ آسانی سے مل جاتا ہے۔ لوگ مسکرا کر ملتے ہیں۔ اب باکو کا حال سنئے۔ اتنا صاف ستھرا شہر شاید یورپ میں بھی کوئی نہ ہو۔ ہر شخص کو امن اور تحفظ کا احساس حاصل ہے۔ کوہ قاف کی طلسمی کشش سے ہر پاکستانی واقف ہے۔ کوہ قاف یہاں سے بالکل نزدیک واقع ہے۔ باکو کا سب سے بڑا انعام وہ میوزیم ہے، جو ایک خاتون نے ڈیزاین کیا ہے۔ یہ خاتون کی مانی ہوئی آرکیٹیکٹ تھیں۔ میوزیم کی عمارت کا حسن قابل دید ہے۔ میرے ایک دوست حال ہی میں یورپ کی سیر کر آئے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ اسپین بھی گئے۔ قرطبہ اور غرناطہ کیوں نہ جاتے۔ کہنے لگے کہ غرناطہ کی گلیاں دیکھ رہا تھا۔ گلیوں کے پتھر، ایسا لگتا تھا ابھی کل ہی پالش ہوئے ہیں اور عمارتوں سے ایسا لگتا تھا کہ ابھی پرسوں ہی پینٹ ہوئی ہیں۔ نہ کہیں کوڑا کرکٹ تھا، نہ کہیں گٹر ابل رہے تھے۔ نہ بدبو تھی۔ نہ چیل کوے، نہ کتے بلی۔
پوری دنیا نے جینے کا قرینہ سیکھ لیا ہے۔ نہ سیکھا تو ہم پاکستانیوں نے۔ کسی شہر کے رئیس کو اگر صفائی کے نام پر دس بیس کروڑ روپیہ مل جائے تو صفائی کے بجائے وہ اس رقم کو اپنے ذاتی اکائونٹ میں ٹرانسفر کر لے گا۔ صفائی جائے بھاڑ میں۔ چمن (پاکستان) میں ہر طرف غربت اور غلاظت کے دھبے بکھرے پڑے ہیں۔ پیر پگارا مرحوم کہا کرتے تھے کہ ہمارے سیاستدان گٹر کلینر (Gutter Clener) ہیں۔ کاش ان کی بات صحیح ہوتی۔ ہمارے حکمران گٹر کلینر ہی ہوتے۔ ملک تو صاف ستھرا ہو گیا ہوتا۔
Prev Post
Next Post