علی اسد
لگتا ہے نواز شریف نے پھر نوشتۂ دیوار پڑھ لیا ہے۔ کمرۂ عدالت سے باہر ان کی گفتگو فکر مندی اور پریشانی کا ملا جلا امتزاج لئے ہوئے تھی۔ ان کا خیال تھا کہ ایک ہفتہ اور مل جائے گا۔ لیکن سپریم کورٹ کا حکم تھا کہ مزید مہلت نہیں دی جائے گی۔ لہٰذا 24 دسمبر تک فیصلہ سنا دیا جائے۔ غالباً نواز شریف کی خواہش تھی کہ انہیں پارٹی کے اس جلسہ عام سے خطاب کی مہلت مل جائے۔ جو تیس دسمبر کو ہونا ہے۔ اس کے بعد وہ جیل چلے جاتے تو کوئی بات نہ تھی۔ اتنا عرصہ خاموشی میں گزارنے کا سبب بھی شاید یہی تھا کہ وہ عدالتوں کو مزید خفا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ جو ماضی میں ان کے جارحانہ بیانات پر اپنی ناراضگی ظاہر کر چکی ہیں۔ بات یہ ہے کہ نواز شریف اب تک نہیں سمجھ پائے کہ ان سے غلطی کیا ہوئی؟ عدالت سے باہر ان کی گفتگو سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی زاویئے سے اپنا قصور سمجھنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ یا شاید اس مرحلے میں اعتراف سے گریز کر رہے ہیں کہ اس کا اثر ان کی سیاست یا مریم کے مستقبل پر نہ پڑے۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ کھلے دل سے اپنا قصور مان لیں اور عوام سے معذرت کرلیں تو کسی اور کے دل میں ہو نہ ہو۔ کروڑوں لوگوں کے دل میں ضرور نرم گوشہ ضرور پیدا ہو جائے گا۔ جنہیں نواز شریف نے دکھ دیا اور ان کے مذہبی جذبات کو پامال کیا۔ سابقہ اسمبلی میں ایک بڑی اکثریت رکھنے کے باعث انہوں نے ہر معاملے میں تنہا پرواز کو فوقیت دی اور اپنے قریب کیا بھی تو اسفندیار ولی اور محمود اچکزئی جیسے مشکوک لوگوں کو۔ حالانکہ انہیں سوچنا چاہئے تھا کہ برا وقت آیا تو ان میں سے کوئی بھی سڑکوں پر نہیں نکلے گا۔ خود ان کی جماعت بھی نہیں۔ یہ صلاحیت صرف دینی مذہبی جماعتوں کے پاس ہے کہ ایک کال پر ہزاروں کارکن سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ وہ بھول گئے کہ دینی
جماعتوں کے پاس بے شک ووٹ نہیں۔ لیکن اسٹریٹ پاور ضرور ہے۔ اور یہی اسٹریٹ پاور ڈنڈے اور گولیاں کھانے اور آنسو گیس پینے کے لئے سینہ کھول کر میدان میں اتر آتی ہے۔ نواز شریف نے دینی طاقتوں سے خود کو دور کر کے اپنا سب سے مضبوط حلیف کھو دیا۔ ان کی دوسری بڑی غلطی ممتاز قادری کو پھانسی دینا تھی۔ یہ ایسا فیصلہ تھا۔ جس نے زمینی اور آسمانی دنیا سے ان کے لئے نرمی۔ درگزر اور شفقت سلب کرلی۔ ان کے سر سے دعاؤں کا سایہ ہٹ گیا۔ پھر لاکھوں اور کروڑوں لوگوں نے رو رو کر ان کے لئے بد دعائیں کیں۔ جس کا شاید انہیں احساس ہی نہیں یا علم ہی نہیں۔ اس پھانسی کے بعد ’’امت‘‘ نے بھی اپنی پالیسی بدلی تھی اور نواز حکومت کا شدید ناقد بن گیا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ اس پھانسی کے اثرات نے نواز شریف سے وہ سب کچھ چھین لیا۔ جو برسوں کی محنت کے بعد انہیں دیا گیا تھا۔ حیرت یہ تھی کہ تیسری بار اقتدار میں آنے کے بعد نواز شریف نے سوچ اور پالیسیاں یکسر تبدیل کرلیں۔ پہلے وہ مذہبی طبقے کی طرف رجحان رکھتے تھے۔ اقتدار میں آنے کے بعد لبرل اور سیکولر بلکہ اسلام مخالف طبقے کی طرف جھک گئے۔ پہلے دینی جماعتوں کو اپنا فطری حلیف سمجھتے تھے۔ اب پاکستان مخالف سیاستدانوں سے پینگیں بڑھا لیں۔ پہلے خالص دیسی تھے۔ اب بابو بن گئے۔ شلوار قمیض واسکٹ اتار دی۔ سوٹ بوٹ ٹائی اپنالی۔ ان کا خیال تھا کہ فوج کے دباؤ سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ براہ راست امریکہ سے رابطہ بڑھایا جائے۔ جو سب کا آقا ہے۔ اس سوچ نے مقتدر حلقوں میں ان کے لئے شکوک پیدا کر دیئے۔ اسی طرح بھارت سے دوستی کی خواہش پر شاید کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔ لیکن فوج اور قومی سلامتی کے اداروں کو لا علم رکھ کر بلا کسی مشاورت کے تنہا پرواز کی کوشش نے شک کے سائے مزید گہرے کر دیئے۔ ان کے گرد ایسے افراد کا محاصرہ تھا۔ جو سچی اور بے لاگ بات ان تک پہنچنے نہیں دیتے تھے۔ اس ٹولے کی خوشامدی گفتگو نواز شریف کے اعصاب کو سکون دیتی تھی۔ جو برسوں کی جلا وطنی سے تھک چکے تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ موصوف خوشامد کے اس جال سے اچھی طرح واقف تھے۔ لیکن اپنے تئیں وہ اس کے مزے لیتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسے لوگ جمع کرنے میں خود ان کی خواہش کا سب سے زیادہ دخل تھا۔ ان کے اقتدار کے دنوں میں پارٹی کے ایک سینئر ترین رہنما اور سینیٹر سے ملاقات کرنے والے ایک سینئر صحافی نے کچھ اہم حقائق ان کے گوش گزار کئے۔ اور درخواست کی کہ یہ باتیں وزیر اعظم نواز شریف تک پہنچا دی جائیں تو مذکورہ رہنما نے بڑی بے بسی سے کہا کہ اب وہ مجھ سے نہیں ملتے۔ اوروں سے مشورے لیتے ہیں۔ کبھی مہینے دو مہینے میں یاد آئے تو مجھے بلا لیتے ہیں۔ وہ بھی چند منٹ کے لئے۔ اس لئے وہ یہ باتیں آگے پہنچانے سے قاصر ہیں۔ مذکورہ رہنما کی گفتگو سے لگتا تھا کہ شاید انہیں محض برکت کے لئے رکھا گیا ہے۔ حالانکہ یہ وہ رہنما تھے۔ جنہوں نے نواز شریف کی تب رہنمائی کی اور ان کے لئے مشکل راستے صاف کئے۔ جب موصوف مشکلات کا شکار تھے۔ پانامہ کیس کے بعد جب نواز شریف معزول ہوئے اور جیل گئے تو انہیں مذکورہ سینئر رہنما
کی یاد آئی۔ تب انہیں آگے لانے کے احکامات دیئے گئے۔ مذکورہ رہنما کا کہنا تھا کہ انہوں نے وزارت عظمیٰ کے دوران ہر ملاقات میں نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہ لے جائیں۔ لیکن یہ بات انہیں پسند نہیں آتی تھی۔ اس لئے مذکورہ رہنما سے ملنا کم کر دیا۔ ایک اور لیگی سینیٹر کا کہنا تھا کہ تین تین ماہ ہو جاتے تھے۔ وزیر اعظم کا دیدار تک نہیں ہوتا تھا۔ مشورہ دینا تو بڑی بات ہے۔ سلام کرنے کا موقع بھی نہیں ملتا تھا۔ لیکن مذکورہ سینیٹر آج بھی عہد وفا نبھا رہے ہیں۔ پرانے اور جنگ آزمودہ ساتھیوں کو دور کرنا اور ناکام اور خوشامدی گروپ کو قریب کرنا شاید اس حکمت عملی کا تقاضا تھا۔ جس کے تحت نواز شریف تنہا فیصلے کرنے کی خود مختاری چاہتے تھے۔ کیونکہ سینئر ساتھی انہیں کسی بھی ایسے فیصلے سے روک سکتے تھے۔ جس کا انجام رسوائی اور بربادی کی طرف جاتا ہو۔ ایک اور اہم مسئلہ فوج کے ضروری فنڈز روکنے کا تھا۔ ایک طرف تو حکومت یہ ظاہر کرتی تھی کہ ترقی کی شرح آٹھ فیصد سے اوپر جا رہی ہے۔ الغاروں پیسہ برس رہا ہے۔ اور دوسری طرف قومی سلامتی کے کئی آپریشنز کے فنڈز دینے میں رکاوٹ ڈالی گئی۔ اور کہا جاتا رہا کہ اس سے ترقی کی قومی گروتھ متاثر ہوگی۔ اس سے بد اعتمادی کی خلیج مزید گہری ہوگئی۔ اسحاق ڈار کا بیان اس تاثر کو تقویت دیتا ہے۔ خیر اب تو سب کچھ گزر گیا۔ لیکن حیرت ہے کہ نواز شریف کو اگرچہ یہ احساس تو ہے کہ ان سے کیا کچھ چھن گیا۔ لیکن یہ نہیں کہ انہوں نے کیا کچھ ضائع کر دیا۔ انہیں احساس ہے کہ اب ایک بار پھر جیل جانا پڑے گا۔ لیکن یہ احساس نہیں کہ بارگاہِ خدا وندی اور بارگاہِ نبویؐ میں کیا جواب دیں گے۔ قوموں کی طرح انسانوں کے عروج و زوال میں بھی بہت سی نشانیاں ہیں۔ بس لوگ سیکھتے نہیں۔ ٭
Prev Post
Next Post