حکومت پنجاب نے آئندہ سال فروری کے دوسرے ہفتے میں ہندوئوں کا تہوار بسنت منانے کا اصولی طور پر فیصلہ کر لیا ہے۔ وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب فیاض الحسن چوہان نے لاہور میں بہ عجلت بلائی جانے والی ایک پریس کانفرنس میں اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ شہر کے ثقافتی حلقوں کی جانب سے یہ تہوار منانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ یہ لاہور کا ثقافتی تہوار ہے، جس سے اربوں روپے کا بزنس ہوتا تھا۔ یاد رہے کہ بسنت تہوار مناتے ہوئے پتنگ کی دھاتی ڈور سے انسانی ہلاکتوں کے باعث 2007ء میں اس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ لیکن 2008ء اور 2008ء میں حکومت پنجاب نے اس کی دوبارہ عارضی طور پر اجازت دے دی، لیکن 2010ء میں پھر پابندی عائد کر دی گئی۔ آئندہ سال فروری میں بسنت کو شایان شان طریقے سے منانے کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے، جو اس تہوار کے منفی پہلوئوں کا جائزہ لے کر آٹھ روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی، جس کے بعد حتمی فیصلہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کریں گے، لیکن وہ بسنت کے صرف انتظامی امور کو دیکھیں گے اور اس کے منفی پہلوئوں سے نمٹنے کا جائزہ لیں گے۔ حکومت پنجاب کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر عدالت نے اس پر پابندی عائد کر دی تو ہم عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کریں گے۔ پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کی دعویدار تحریک انصاف نے ملک بھر میں عدل و انصاف، امن و امان، روزگار، صحت، تعلیم جیسے امور میں اسلامی نقطۂ نظر سے تو کیا، عام دنیاوی فلاحی ریاست جیسے کسی ایک کام کی جانب پیش رفت نہیں کی ہے۔ لیکن اس کی پنجاب حکومت بسنت کے تہوار کو شایان شان طریقے سے منانے کے لیے بے چین ہے اور اس کا اعلان بھی صوبائی وزیر ثقافت کر رہے ہیں۔ کسی بھی مسلم مملکت میں غیر مسلموں کو اپنے تہوار منانے کی پوری آزادی حاصل ہوتی ہے۔ تاہم پنجاب کے صوبائی وزیر ثقافت کو اسلام کا کوئی مذہبی و ثقافتی تہوار یاد نہیں آیا۔ وہ ہندوئوں کے تہوار بسنت کو لاہور کا ثقافتی تہوار قرار دے رہے ہیں، جبکہ اسلام نے اپنی عبادات اور تہذیبی و ثقافتی روایات میں غیر مسلموں کی تقلید سے منع کیا ہے۔ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام ملک میں اسلام کا نظام امن و انصاف نافذ کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ چاہتے ہیں کہ قومی خزانہ لوٹنے والوں کے خلاف ضروری اور فوری کارروائی کر کے وطن عزیز کو قرضوں سے نجات دلائی جائے، جس کے نتیجے میں ملک سے بے روزگاری اور مہنگائی دور ہو کر ترقی و خوش حالی کا دور شروع ہو۔ ایسے بنیادی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے ان حلقوں کا مطالبہ تسلیم کیا جا رہا ہے، جنہوں نے پاکستان کو ہمیشہ اپنے اساسی نظریئے سے ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر اربوں روپے کے بزنس کی خاطر ایسے کاموں کی اجازت دی جانے لگے تو دنیا کے کئی ممالک شراب نوشی اور قحبہ گری کی اجازت دے کر بڑا مال کما رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے ملک میں فروغ سیاحت کا اکثر ذکر کرتے ہیں تو کیا بسنت جیسے تہواروں کی اجازت دینا اسی سمت میں پیش رفت ہے کہ پاکستان میں بیرونی سیاحوں کے لیے عیش و عشرت کے اڈے قائم کر کے دولت کمائی جائے۔ پاکستان کے مسلمان معاشرے میں اصولی یا قانونی طور پر اقلیتی برادری کے ارکان یعنی ہندوئوں کی جانب سے بسنت کا تہوار منانے پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ یہ ان کا مذہبی تہوار ہے۔ تاہم انہیں بھی بعض حدود و قیود کا پابند ہونا چاہئے۔ مثلاً یہ کہ اس تہوار کو منانے سے مسلم معاشرے میں رقص و سرود اور شراب و شباب جیسی فحاشی نہ پھیلے۔ اس تہوار میں پتنگ اڑانے کی روایت بہت بعد کا اضافہ ہے۔ پتنگ کے تاجر دولت کے لالچ میں دھاتی ڈور تیار کر کے بیچتے ہیں، جس سے بچوں اور بڑوں کے گلے کٹنے کی وجہ سے ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ اسلام میں ایک انسان کی جان خانہ کعبہ سے زیادہ محترم ہے، جبکہ بسنت کے دوران درجنوں بے گناہ شہری پتنگ کی دھاتی ڈور سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ لاہور میں اعلیٰ طبقوں کے آزاد و بے لگام ’’مسلم‘‘ نوجوان جس انداز میں بسنت مناتے ہیں، اس میں مردوں اور عورتوں کی مخلوط محفلیں، ناچ گانا اور شراب نوشی و فحاشی کے عناصر نہایت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ وہ محض اپنی آزاد روی کے تحت ایسا کرتے ہیں، جبکہ ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ وہ ہندوئوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ مسلمانان پاکستان بسنت کے خلاف پابندی کے حق میں نہیں، یہ تہوار منانے کا حق صرف ہندوئوں کو ہے، جو پاکستان کے مسلم معاشرے اور انسانی جانوں کے تحفظ کا احترام کرتے ہوئے اپنا یہ تہوار منائیں تو مسلمان مکمل رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کا یہ مذہبی حق تسلیم کرتے ہیں، لیکن ان کی آڑ میں اوباش مسلم نوجوانوں کو مسلمانوں کی اقدار پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، جبکہ اس سے انسانی جانوں کی حفاظت کا مسئلہ بھی وابستہ ہے۔
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز
وفاقی وزیر مملکت برائے امور داخلہ شہریار آفریدی نے یہ ہولناک انکشاف کیا ہے کہ اسلام آباد کے بڑے تعلیمی اداروں کے پینتالیس فیصد طلبا اور پچھتر فیصد طالبات مختلف قسم کے نشوں کی لت میں مبتلا ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈرگ مافیا ہماری نسلوں کو تباہ کر رہی ہے، جبکہ خودکش بمبار تو کچھ افراد کو نشانہ بناتے ہیں۔ شہریار آفریدی نے یہ بھی بتایا کہ سرگودھا سے بچوں کی چونسٹھ ہزار غیر اخلاقی ویڈیوز برآمد ہوئی ہیں۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ حکومت غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو عبرت کا نشان بنائے گی۔ اس خبر کے کئی پہلو قابل غور ہیں۔ ایک تو یہ کہ تحریک انصاف اور اس کی حکومت میں لبرلز یا آزاد خیال افراد کی بڑی تعداد موجود ہے، جو اسلام کی نام لیوا تو ہو سکتی ہے، دل سے شریعت کا نفاذ نہیں چاہتی۔ دوم، ملک میں کوئی باقاعدہ وزیر داخلہ موجود نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان ہی یہ منصب سنبھالے ہوئے ہیں۔ بنی گالہ سے جو خبریں چھن کر باہر آتی ہیں، ان کی روشنی میں منشیات فروشی میں ملوث افراد عبرت کا نشان تو کیا بنیں گے، انہیں معمولی سزائیں ملنا بھی مشکل ہے۔ سوم، وطن عزیز میں یکساں نظام تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے مقتدر و متمول طبقوں کے طلبا و طالبات لاکھوں روپے کی فیس ادا کر کے نجی تعلیمی اداروں میں جاتے ہیں، جن کے منتظمین اور اساتذئہ کرام کو بچوں کی تعلیمی و تربیتی سرگرمیوں سے زیادہ مال و دولت کمانے سے دلچسپی ہوتی ہے، پھر یہ کہ وہ اعلیٰ طبقات سے تعلق رکھنے والے بچوں کی سرزنش بھی نہیں کر سکتے۔ ان اداروں میں جو بھی فواحش و منکرات فروغ پائیں، وہ ان کے لیے قابل قبول ہیں، کیونکہ وہاں سب کا حال کچھ ایسا ہے کہ ’’کند ہم جنس با ہم جنس پرواز۔‘‘
Prev Post