میئر کراچی نے سینکڑوں تاجروں کو سڑک پر لاکھڑا کیا

0

عمران خان
’’میرے والد نے ایمپریس مارکیٹ میں کے ایم سی کی قائم کردہ دکانوں میں سے ایک دکان 1949ء میں لی تھی۔ جس میں انہوں نے چائے کی پتی فروخت کرنے کا کام شروع کیا تھا۔ ہم 69 برس سے اس دکان میں کاروبار کررہے تھے۔ ہم نے کے ایم سی کو دکان کی الاٹمنٹ کی مد میں ہر قسم کے واجبات اور فیسیں ادا کی تھی اور باقاعدگی سے ہر مہینے کرایہ بھی ادا کرتے رہے ہیں، جس کی رسیدیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ اس کے باجود ظالموں نے دکان مسمار کرکے ہمارا کاروبار تباہ کردیا‘‘۔ یہ باتیں بیروزگاری کا دکھ جھیلنے والے یار گل نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ…’’میرے چار بچے ہیں، جو ابھی پڑ رہے ہیں اور میں کرائے کے مکان میں رہتا ہوں۔ کچھ عرصہ قبل مالی حالات بگڑنے پر اپنا مکان فروخت کردیا تھا۔ اب اچانک دکان مسمار ہونے کے بعد ایسی بے سروسامانی کے عالم میں آگئے ہیں کہ آپ اندازہ نہیں لگاسکتے۔ جہاں دکان تھی، وہیں لکڑی کی میز پر روزانہ تھوڑی مقدار میں چائے کی پتی رکھ کر فروخت کررہا ہوں‘‘۔ ایمپریس مارکیٹ کی دکان نمبر 56 کے مالک یار گل نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ ’’کوئی تو بتائے کہ ہماری دکانوں پر یہ آپریشن کیوں کیا گیا۔ یہ دکانیں تو تجاوزات کے زمرے میں نہیں آتی تھیں۔ اگر یہ دکانیں غیر قانونی تھیں تو پھر کے ایم سی کے ان افسران کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے ماضی میں تمام قسم کے واجبات وصول کرکے یہ دکانیں الاٹ کی تھیں اور بعد میں آنے والے افسران ان دکانوں سے ٹیکس اور کرایہ وصول کرتے رہے۔ ہمارے پاس کئی دہائیوں سے دیئے جانے والے کرایے کی رسیدیں، دکانوں کے الاٹمنٹ کی دستاویزات اور بجلی وغیرہ کے بل بھی موجود ہیں‘‘۔
جس وقت یار گل ’’امت‘‘ سے گفتگو کر رہے تھے، اس وقت معلوم ہوا کہ ایمپریس مارکیٹ کے اندر گزشتہ کئی دہائیوں سے دیا جانے والا بجلی کا کنکشن بھی منقطع کردیا گیا ہے۔ یہ کنکشن ایمپریس مارکیٹ کے اطراف اور اندر دکانیں مسمار کرنے کے ایک ماہ بعد منقطع کیا گیا۔ وہ تاجر جو اپنی منہدم دکانوں کے ملبے پر اور اطراف میں تھوڑا بہت سامان رکھ کر فروخت کر رہے تھے، اندھیرے میں بیٹھے رہے۔ وہاں موجود دکانداروں کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ اس لئے کیا جارہا ہے کہ متاثرہ تاجر پریشان ہوکر یہاں آنا ہی چھوڑ دیں، لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ دکانداروں کا کہنا تھا کہ انہوں نے آپریشن کے دوران کوئی مزاحمت نہیں کی تھی، بلکہ اپنے حق کیلئے پر امن احتجاج کرتے رہے تھے۔ انہوں نے اس یقین دہانی پر انتظامیہ کا ساتھ دیا تھا کہ انہیں متبادل جگہیں فراہم کی جائیں گی۔ لیکن اب تک یہ وعدے اور دعوے زبانی کلامی نظر آرہے ہیں۔ میئر کراچی کی سربراہی میں آپریشن کرنے والے کے ایم سی کے افسران نے اب تک متاثرہ دکانداروں سے کسی قسم کے لکھت پڑھت نہیں کی ہے، جس کی وجہ سے دکانداروں کو خدشات لاحق ہیں کہ انہیں متبادل جگہ ملے گی یا نہیں۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو میں یار گل کا مزید کہنا تھا کہ ان کا آبائی تعلق خیبر پختون کے علاقے مہمند ایجنسی سے ہے۔ ان کے والد قیام پاکستان کے فوری بعد کراچی آگئے تھے اور یہاں انہوں نے ایمپریس مارکیٹ میں کے ایم سی سے دکان الاٹ کرواکر چائے کی پتی فروخت کرنی شروع کی تھی۔ وہ 30 برس تک خود یہ کاروبار چلاتے رہے۔ اس دوران یار گل اور ان کے تین بھائی والد کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ اب گزشتہ 30 برس سے یہ دکان یار گل خود چلا رہے ہیں۔ یار گل کے بقول کچھ برس قبل تک ان کے حالات بہت بہتر تھے۔ کاروبار اچھا چل رہا تھا۔ لیکن پھر اچانک کچھ مسائل ایسے درپیش آئے کہ انہیں اورنگی ٹائون میں اپنا ذاتی مکان فروخت کرنا پڑا۔ اب وہ اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ کٹی پہاڑی کے علاقے میں کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ لیکن دکان سے مکان کا کرایہ اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات سمیت گھر کا خرچہ آرام سے نکل رہا تھا۔ ان کی دکان پر چار مزدور لڑکے بھی کام کر رہے تھے، جنہیں وہ باقاعدگی سے تنخواہیں دیتے تھے۔ لیکن انکروچمنٹ کے نام پر کئے گئے اس ظالمانہ آپریشن نے ان سے سب کچھ چھین لیا۔ انہیں ایسا لگ رہا ہے کہ وہ سڑک پر آگئے ہیں۔ دکان مسمار ہونے کے بعد انہوں نے دکان میں موجود سامان گاڑی میں رکھ کر اپنے گھر منتقل کردیا تھا۔ اب وہ روزانہ تھوڑا تھوڑا مال لاکر مسمار دکان کے سامنے ایک میز رکھ کر فروخت کر رہے ہیں، تاکہ کچھ نہ کچھ آمدن ہوتی رہے۔ لیکن آخر کس طرح ایسے کام چلائیں گے۔ دکان کا بندوبست ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے ملازم چاروں لڑکوں کو بھی فارغ کردیا ہے۔ ان کو مزدوری دینے کیلئے پیسے جو نہیں تھے۔ انہوں نے چاروں لڑکوں سے کہا ہے کہ وہ کہیں اور نوکری تلاش کرلیں، تاکہ اپنے گھروں کو پیسے تو بھیج سکیں۔ یار گل کا کہنا تھا کہ حکومت نے سینکڑوں تاجروں کو سڑک پر لا پھینکا ہے۔ ابھی متبادل جگہ دینے کی کوئی منصوبہ بندی بھی نہیں کی گئی ہے۔ یار گل کے بقول انہیں سب سے بڑی پریشانی یہ لاحق ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کے تعلیمی اخراجات کیسے پورے کریں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں اسکول سے اٹھانا پڑے گا۔ دکان کا لاکھوں روپے کا نقصان الگ ہوگیا ہے۔ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ لیکن جب اطراف میں دیگر دکانداروں کو دیکھتے ہیں تو سب کا یہی حال نظر آتا ہے، تو یہ سوچ کر خود کو بہلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم اکیلے ہی برباد نہیں ہوئے ہیں۔ اللہ ضرور کوئی سبب بنائے گا کہ ہم دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں گے۔ یار محمد کا مزید کہنا تھا کہ میئر کراچی اور دیگر متعلقہ اداروں کے افسران خدا کا خوف کریں۔ برباد ہونے والے تاجروں کی بددعائیں انہیں چین نہیں لینے دینگی۔ انہیں اللہ کی پکڑ سے بچنا ہے تو تمام متاثرہ دکانداروں کو زمین یا دکانیں الاٹ کریں، تاکہ وہ نئے سرے سے اپنے کاروبار شروع کرکے اپنے خاندانوں کی کفالت کرسکیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More