وزیراعظم بننے کیلئے دو دہائیوں سے بے چین اور بری طرح کوشاں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان 2018ء کے انتخابات میں اگرچہ واضح اکثریت حاصل نہ کر سکے، لیکن اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کیلئے انہوں نے دیگر جماعتوں اور آزاد ارکان کے تعاون سے کسی طرح حکومت بنالی۔ صوبہ پنجاب میں سادہ اکثریت نہ ہونے کے باوجود مسلم لیگ کو پیچھے دھکیل کر تحریک انصاف نے صوبائی حکومت بھی تشکیل دے ڈالی، جبکہ خیبر پختونخوا میں یہ جماعت گزشتہ پانچ سال کے دوران پہلے ہی حکومت کر چکی تھی اور اس مرتبہ بھی اس کی حکومت قائم ہوگئی۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کی بدترین بدعنوانی اور لوٹ مار کے باعث وطن عزیز کے لوگوں نے تحریک انصاف کو موقع دیا کہ وہ نئی سوچ، نئے انداز اور نوجوانوں کی قوت کے ساتھ شاید عوام کے دکھوں کا مداوا کرسکے۔ لیکن حیرت انگیز طور تحریک انصاف اور اس کے سربراہ عمران خان نے امور مملکت سنبھالتے ہی لوگوں کو مایوس کرنا شروع کردیا، جس کا اندازہ انہیں خود بھی ہوگیا۔ ایک طرف انہوں نے کہا کہ اگر وہ اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام ہوتے ہوئے نظر آئے تو اقتدار چھوڑ دیں گے، کیونکہ ملک و قوم کے مقابلے میں وہ حکومت کو ہرگز کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ عوام سیاستدانوں کی جانب سے اس قسم کے بیانات سننے کے عادی ہیں، جن پر وہ کبھی پورے نہیں اترتے۔ پھر یہ کہ جس شخص کو برسوں تک خواب دیکھنے کے بعد وزیراعظم بننا نصیب ہوا ہو، وہ کیسے اس منصب کو چھوڑ سکتا ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کی ناکامی اور عوام کا شدید ردعمل دیکھتے ہوئے وسط مدتی انتخابات کا خود ہی شوشہ چھوڑا۔ دونوں باتوں سے ان کے مقاصد و عوامل خواہ کچھ بھی ہیں، لیکن ان میں اعتراف شکست واضح طور پر نظر آتا ہے۔ موجودہ حکومت کو جیسی مختصر، کمزور اور منتشر اپوزیشن ملی ہے، وہ اس کیلئے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں، پھر بھی تحریک انصاف کی حکومت اس سے فائدہ اٹھا کر بائیس کروڑ پاکستانی باشندوں کو معمولی سہولت پہنچانے کا کوئی چھوٹا سا کام بھی نہ کرسکے، تو یہ نہ صرف اس کی بلکہ ملک کی بھی بدقسمتی ہے۔ نئی حکومت کی وزارت خزانہ کو عوام کے حق میں سب سے زیادہ فعال و متحرک ہونے کی ضرورت تھی۔ گزشتہ عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف نے دنیا بھر کو یہ تاثر دیا تھا کہ اس کے پاس اقتصادی ماہرین کی ایک ٹیم موجود ہے، جس نے ملک و قوم کی معاشی مشکلات کو دور کرنے اور عوام کے دیرینہ مسائل حل کرنے کی زبردست تیاریاں کر رکھی ہیں۔ اس ہوم ورک کی بنیاد پر پلک چھپکنے میں لوگوں کو بہتر تبدیلی نظر آنے لگے گی، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ تحریک انصاف کی حکومت ملک کو اقتصادی بحران سے تو کیا نکالتی، عام شہریوں کی زندگی مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار سے مزید اجیرن کر دی۔ جو حکومت اپنی سمت متعین نہ کرسکے اور بار بار مؤقف بدل کر یوٹرن سے بھی آگے خط منحنی یا ٹیڑھی ترچھی لکیر پر چلنے لگے، اس سے عوام خیر کی کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔
چار ماہ کی قلیل مدت میں وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے بجلی کے نرخوں میں تیسری مرتبہ اضافہ کیا ہے۔ گزشتہ روز بجلی کی قیمتوں کا تعین کرنے والے ادارے نیپرا نے اعلان کیا کہ بجلی کے نرخوں میں ایک روپے ستائیس پیسے فی یونٹ اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سے صارفین پر ایک اندازے کے مطابق ایک کھرب تیس ارب اور دوسرے تخمینے کے مطابق دو کھرب چھبیس ارب روپے کا سالانہ بوجھ پڑے گا۔ نیپرا نے اسے یکساں پاور ٹیرف کا اطلاق قرار دیتے ہوئے یہ احسان بھی جتایا ہے کہ ماہانہ تین سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین اس اضافے سے متاثر نہیں ہوں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ متاثر ہونے والے صارفین اتنے بااثر و بااختیار ہیں کہ ان کی بڑی تعداد بجلی چوری میں ملوث ہے۔ سرکاری اداروں سمیت یہ بڑے صارفین بجلی کے بل پورے اور بروقت ادا نہیں کرتے۔ چنانچہ بجلی کی قلت اور لوڈشیڈنگ کا سارا عذاب ان غریب و شریف صارفین کو بھگتنا پڑتا ہے جو بلوں کی پوری اور بروقت ادائیگی کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ زیادہ بجلی استعمال کرنے والے تجارتی و صنعتی صارفین سارا بوجھ اپنی اشیا اور مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عام خریداروں کی جانب منتقل کر دیتے ہیں، بلکہ یہاں تو یہ تماشا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ تاجروں اور صنعت کاروں کو بجلی کے نرخوں میں اضافے سے بالفرض اپنی کسی شے کی لاگت روپے دو روپے بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے تو وہ اسے ’’راؤنڈ فیگر‘‘ کا نام دے کر پانچ روپے اضافہ کرکے مزید منافع کمانے کا راستہ تلاش کرلیتے ہیں اور یہ اضافی بوجھ بھی غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ وزارت بجلی و پانی اور نیپرا کی جانب سے صارفین کو دھوکا دینے کیلئے اعداد و شمار میں ہیر پھیر کرکے جو کچھ بھی کیا جائے، یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار رہتی ہے کہ بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کا شیطانی پہیا گھمانے کے مترادف ہے، جس کی زد میں بالآخر غریب عوام ہی آتے ہیں۔ دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے مالیاتی خسارہ پورا کرنے کیلئے آئندہ ماہ جنوری میں منی بجٹ لانے اور ٹیکسوں میں اضافے کا عندیہ دیا ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ نئے اقدامات کی بدولت کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پالیا گیا ہے۔ انہوں نے ڈالر کی قیمتوں میں اضافے پر اپنا مؤقف کئی بار بدلنے کے بعد آخر میں یہ اعلان کیا ہے کہ اب روپے کی بے قدری کم ہونا شروع ہو چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے اور روپے کی قدر میں استحکام کے بعد بجلی کے نرخوں میں اضافے اور نیا بجٹ لاکر عوام پر نئے ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کا حکومت کے پاس کیا جواز رہ جاتا ہے؟ عوام کے شدید ردعمل سے بچنے کے لئے آئی ایم ایف سے قرضوں کا حصول مؤخر کرنے والے وفاقی وزیر خزانہ نے یہ اعتراف بھی کرلیا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے شرائط پیش کئے جانے سے پہلے ہم نے خود ہی اشیائے صرف کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں کئی مرتبہ اضافہ کرکے اس کی خوشنودی حاصل کرلی ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین وغیرہ سے قرضوں کے حصول میں کامیابی کے حکومتی دعوؤں پر غور کیا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ لفاظی کے ذریعے قوم کو دھوکا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، جبکہ فی الوقت ملائیشیا کا نام لینے سے گریز کیا جارہا ہے۔ اگر دوست ممالک کی مدد سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پایا جاچکا ہے تو پھر آئی ایم ایف کے پاس جانے اور مہنگائی میں پے درپے اضافے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا تحریک انصاف کی حکومت عوام کو اپنا مخالف کرکے اپنا دشمن آپ ہوگئی ہے، جبکہ اس کے مخالفین بھی ہاتھ ملا کر اور سر جوڑ کر بیٹھنے کے لئے تیار ہیں۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post