علی بن عاصمؒ ایک بصری سے نقل کرتے ہیں کہ ایک عالم اور ایک عابد آپس میں خالص خدا کیلئے محبت کرتے تھے۔ شیاطین نے ابلیس سے کہا: ہم نے بہت کوشش کی ہے، مگر ان میں جدائی نہیں ڈال سکے تو ابلیس ملعون نے کہا ان کو میں کافی ہوں، پھر وہ عابد (عبادت گزار جو عالم دین نہیں تھا) کے راستہ میں جا بیٹھا جب عابد شیطان کے قریب پہنچا، ابلیس نے اس کے سامنے بوڑھے سن رسیدہ کی صورت میں ملا اور اپنے ماتھے پر سجدے کا نشان بھی ظاہر کئے ہوئے تھا۔
چنانچہ ابلیس نے عابد سے پوچھا: میرے دل میں ایک سوال ابھر رہا ہے، میں نے چاہا کہ اس کے متعلق آپ سے معلوم کروں؟ عابد نے کہا پوچھو، اگر مجھے علم ہوگا تو اس کا جواب دے دوں گا؟
شیطان نے کہا کیا خدا تعالیٰ اس کی طاقت رکھتا ہے کہ آسمانوں، زمین، پہاڑوں، درختوں اور
پانی کو ایک انڈے میں سما دے بغیر اس کے، کہ انڈے کو بھی بڑا نہ کرے اور ان کی مخلوقات کو بھی چھوٹا نہ کرے؟
عابد نے حیران ہو کر پوچھا بغیر ان کے کم کیے اور بغیر اس کے بڑھائے؟ اس طرح سے عابد سوچ میں پڑھ گیا تو ابلیس نے عابد کو کہا اب آپ چلے جائیں۔ پھر شیطان اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوا اور کہا میں نے اس کو خدا تعالیٰ کے متعلق شک میں ڈال کر ہلاک کر دیا ہے۔
پھر وہ عالم کے راستے میں بیٹھا، جب وہ شیطان کے قریب پہنچا تو شیطان احترام میں کھڑا ہو گیا اور پوچھا: اے حضرت! میرے دل میں ایک سوال کھٹک رہا ہے، میں نے چاہا کہ اس کو آپ سے حل کراؤں۔
عالم نے فرمایا: پوچھو اگر مجھے علم ہوگا تو تمہیں بتا دوں گا۔
شیطان نے کہا کیا خدا تعالیٰ اس کی طاقت رکھتا ہے کہ تمام آسمانوں، زمین، پہاڑوں، درختوں اور پانی کو ایک انڈے میں سما دے۔ اس انڈے کو بڑھائے بغیر اور ان مخلوقات کو چھوٹا کیے بغیر؟
تو اس کو عالم نے جواب دیا بالکل سما سکتا ہے۔
تو شیطان نے انکار کے لہجے میں کہا: انڈے کو بڑھائے بغیر؟ اور ان مخلوقات کو چھوٹا کیے بغیر؟ عالم نے اس کو جھڑک کر کہا ہاں ہاں۔ پھر یہ سورئہ یٰسین کی آیت نمبر 82 پڑھی کہ حق تعالیٰ کا معاملہ تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کو کہتے ہیں ’’کن‘‘ (ہوجا) تو وہ ہوجاتی ہے۔
ابلیس نے اپنے شیطانوں سے کہا: اسی جواب کے سنوانے کے لیے میں تمہیں یہاں لایا تھا (یہ ہے عالم اور عابد میں فرق کہ عابد تو شیطان کے جال میں پھنس سکتا ہے عالم نہیں، حق تعالیٰ ہمیں شیطان کے گمراہ کرنے سے محفوظ رکھے۔ (آمین) (مکاید الشیطان)
٭٭٭٭٭
Prev Post