سرفروش

0

عباس ثاقب
اس مرحلے پر ظہیر نے مداخلت کی۔ ’’ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے، لیکن اگر ہم دونوں واپس نہ بھی لوٹیں تو انہیں بحفاظت کشمیر میں ان کے عزیز و اقارب تک پہنچانا آپ کی ذمہ داری ہوگی‘‘۔
ظہیر کی بات سن کر یاسر چونکا۔ ’’کیا مطلب؟ کسی خطرناک مہم پر جائیں گے آپ دونوں؟‘‘۔
مجھے لگا کہ ظہیر کو اس موقع پر یہ بات نہیں کھولنا چاہیے تھی۔ لیکن اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ میں نے اسے ہی وضاحت کا موقع دیا۔ ظہیر بولا۔ ’’یاسر بھائی آپ کو اچھی طرح پتا ہے کہ میری زندگی ہر وقت، ہر قدم پر خطرے کی زد میں رہتی ہے۔ جمال بھائی نے میری زندگی بچانے کے لیے جوکچھ کیا ہے، اس کے بعد ان کے لیے بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔ لہٰذا ہم کسی بھی وقت کسی ناخوش گوار صورتِ حال سے دو چار ہوسکتے ہیں۔ اس لیے حفظ ماتقدم کے طور پر آپ سے درخواست کی ہے‘‘۔
یاسر نے پُر عزم لہجے میں کہا۔ ’’تم دونوں بے فکر ہوجاؤ۔ میری پناہ میں آنے کے بعد کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ میں جان سے گزر جاؤں گا، ان پر کوئی آنچ نہیں آنے دوں گا۔ مجھے نرا بیوپاری نہ سمجھنا، میں پہلے کشمیری ہوں، عزت کی خاطر جان کی بازی لگا سکتا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے تکیہ ہٹاکر نیچے رکھا پستول دکھایا۔
ظہیر نے کہا۔ ’’بھائی اسی لیے تو آپ پر اعتماد کیا ہے۔ ہمیں پتا ہے کہ ہم میں اور آپ میں کوئی فرق نہیں ہے‘‘۔
یاسر نے ہمیں ایک ریستوران میںبہت عمدہ کھانا کھلایا اور واپسی پر ایک بار پھر گپ شپ کی محفل جمی۔ موقع دیکھ کر میں نے سونے کی ٹکیوں کی فروخت کے معاملے میں اس کی مدد مانگی۔ میری بات سن کر وہ کچھ دیر سوچتا رہا، پھر بولا۔ ’’یہ کوئی مشکل کام نہیں، لیکن موجودہ صورتِ حال رازداری کا تقاضا کرتی ہے۔ میرا خیال ہے یہ کام ناصر زیادہ اچھی طرح کر سکتا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، انبالا میں اس کا ایک دوست سنار کا کام کرتا ہے۔ اس کے ذریعے رازداری کے ساتھ سونے کی ان ٹکیوں کا سودا کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ قیمت بھی مناسب ملے گی‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’لیکن یہ یاد رہے بھائی کہ ہمارے پاس صرف کل کا پورا اور پرسوں کا آدھا دن ہے!‘‘۔
میری بات سن کر اس کی پیشانی پر تفکر کی لکیریں ابھریں۔ کچھ سوچنے کے بعد اس نے کہا۔ ’’وقت تو واقعی کم ہے۔ خدا جانے وہ سنار بروقت دستیاب ہو بھی سکے یا نہیں۔ ہمیں کوئی یقینی راستہ ڈھونڈنا ہوگا‘‘۔
وہ کچھ دیر مزید سوچتا رہا، پھر اس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ ’’سونے کی ٹکیاں بعد میں فروخت ہوتی رہیں گی۔ میں اپنے بل پر ان کے مساوی رقم کا بندوبست کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ بتائیے کہ آپ کو کتنی ادائیگی کرنی ہے؟‘‘۔
میں نے اپنے پاس محفوظ نقد رقم کا دل ہی دل میں اندازہ لگایا۔ کم ازکم پندرہ اور زیادہ سے زیادہ سترہ ہزارروپے اس وقت بھی میرے پاس موجود ہوں گے۔ ان طلائی ٹکیوں کی قیمت کا تخمینہ تیس ہزار کے لگ بھگ تھا۔ میں نے اپنے ذہن میں گنجائش رکھتے ہوئے بتایا۔ ’’میرا خیال ہے پچیس ہزار روپیے سے کام چل جائے گا‘‘۔
اس مرحلے پر ظہیر نے کہا۔ ’’میں نے بتایا تھا ناں، بارہ تیرہ ہزار روپے تو میرے پاس بھی موجود ہیں‘‘۔
میں ظہیر کی رقم کو شامل نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن اس وقت مجبوری تھی۔ چنانچہ میں نے اعتراض نہیں کیا۔ ظہیر کی بات سن کر یاسر خوش ہوگیا۔ ’’یار پھر تو صرف تیرہ ہزار کا فرق رہ گیا، جس کا ان شاء اللہ میں بندوبست کردوں گا۔ اللہ اللہ، خیر سلّا!‘‘۔
میں نے یاسر کو کہا۔ ’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ اب ہمیں اطمینان ہے کہ ہم مطلوبہ رقم لے کر وہاں پہنچ جائیں گے۔ لیکن میری درخواست ہے کہ ان دو دنوں میں سونے کی ٹکیوں کا مناسب خریدار تلاش کرنے کی کوشش بھی جاری رکھیں‘‘۔
یاسر نے کہا۔ ’’اچھا ٹھیک ہے، ہم کل صبح ناصر کے پاس منڈی گوبند سنگھ چلتے ہیں۔ اگر آسانی سے کام بن گیا تو ٹھیک ہے، ورنہ اپنے پاس دستیاب نقدی سے کام چلائیں گے‘‘۔
اس سے زیادہ اصرار کی گنجائش نہیں تھی، لہٰذا میں نے اس کی بات سے اتفاق کیا۔ یاسر نے اسی کمرے میں اضافی پلنگ اور بستر کا بندوبست کرلیا تھا، لہٰذا رات گئے تک ہم آپس میں خوش گپیاں کرتے رہے۔ میرے پاس بتانے والی کم اور چھپانے والی باتیں زیادہ تھیں، لہٰذا میں زیادہ تر سامع بنا رہا۔ یاسر ہمیں اپنے قصبے اننت ناگ کے قصے سناتا رہا۔ اسی دوران میں اس نے سرسری انداز میں اپنی اہلیہ کا بھی ذکر کیا، جو پہلے بچے کی پیدائش کے دوران جاں بحق ہوگئی تھی۔
اس دردناک ذکر سے فضا اداس ہوگئی اور گفتگو کا سلسلہ رفتہ رفتہ کم ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ ظہیر کے ہلکے ہلکے خراٹوں نے نیند کی دیوی کا غلبہ ظاہر کردیا اور ہم دونوں بھی ایک دوسرے کو شب بخیر کہہ کر سوگئے۔
صبح ظہیر کے جگانے سے میری آنکھ کھلی۔ یاسر بھٹ کمرے میں دکھائی نہیں دیا۔ ’’جمال بھائی منہ ہاتھ دھولیں۔ یاسر بھٹ ناشتے کا بند و بست کرنے کے لیے باہر گئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ آپ کو اٹھادوں، ناشتہ ٹھنڈا ہو جائے تو مزانہیں آتا‘‘۔
میں نے ایک طویل انگڑائی لی۔ غسل خانے میں پہنچا تو بھاپ اڑاتے گرم پانی کا بڑا سا برتن دکھائی دیا۔ موقع غنیمت جان کر میں نے اطمینان سے غسل کیا۔ واپس آیا تو یاسر ابھی تک واپس نہیں لوٹا تھا۔ میں نے کہا۔ ’’یار منڈی گوبند گڑھ پہنچتے پہنچتے دوپہر نہ ہوجائے‘‘۔
ظہیر نے کہا۔ ’’فکر نہ کریں، زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ لیکن میں یاسر بھائی کی غیر موجودگی میں آپ سے ایک بات کہنا چاہ رہا تھا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ تو کہو ناں یار، تکلف کیوں کر رہے ہو؟‘‘۔
اس نے کہا۔ ’’میرا مشورہ ہے کہ یہ سونے کی ٹکیاں فروخت کرنے کی کوشش فی الحال ترک کردیں۔ ہم مانک کو جو رقم دینے والے ہیں، جب وہ اگلے دن ہمیں واپس لے لینی ہے تو پھر یہ سونے کی ٹکیاں فروخت کرنے کا دردِ سر مول لینے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More