حضرت عامرؓ بن فہیرہ اخلاص فی الدین، زہد و اتقا، شغف قرآن اور حب رسولؐ کے اعتبار سے ایک مثالی حیثیت رکھتے تھے۔ انوار رسالت کی تجلیوں نے ان کے قلب و دماغ کو ایسا منور کیا تھا کہ خاصان خدا میں شامل ہوگئے تھے۔ رمضان المبارک 2 ہجری میں حق و باطل کا معرکہ اول بدر کے میدان میں پیش آیا تو حضرت عامرؓ بن فہیرہ اس میں بڑے ذوق و شوق سے شریک ہوئے اور پرستارانِ باطل کے خلاف خوب خوب دادِ شجاعت دی۔ اگلے سال غزوئہ احد میں بھی رحمت دو عالمؐ کی ہم رکابی کا شرف حاصل کیا اور بڑی بہادری سے لڑے۔ صفر 4 ہجری میں سرور دو عالمؐ نے ابوبراء کلابی کی استدعا پر ستر صحابہؓ کی ایک جماعت نجد کی طرف روانہ فرمائی۔ اس جماعت کے اکثر اراکین اصحاب صفہ میں سے تھے اور قراء (قرآن پڑھنے والے) کے لقب سے مشہور تھے۔ حضرت عامرؓ بن فہیرہ بھی اس مقدس جماعت میں شامل تھے۔ جب یہ اصحاب بیئر معونہ کے مقام پر پہنچے تو بنو کلاب کے سردار عامر بن طفیل نے غداری کی اور قبائل رعل و ذکوان کے مشرکین کو ساتھ لے کر ان پاک باز اصحاب پر حملہ کردیا جو ان کو ہدایت اور نجات کا راستہ بتانے آئے تھے۔
یہ تمام مردان حق حضرت عمرؓ بن امیہ الضمری کے سوا مشرکین کی تیغ جفا کا شکار ہوگئے اور خلعت شہادت پہن کر خلد بریں میں پہنچ گئے۔ حضرت عامرؓ بن فہیرہ کو ایک شخص جبار بن سلمیٰ کلابی نے شہید کیا، جب اس نے پوری قوت سے اپنا نیزہ حضرت عامرؓ کی پشت پر مارا تو انہوں نے گرتے ہوئے بے ساختہ فرمایا: ’’خدا کی قسم میں کامیاب ہوگیا‘‘ اس وقت حضرت عامرؓ بن فہیرہ کی لاش تڑپ کر آسمان کی طرف بلند ہوئی اور نظروں سے غائب ہوگئی۔ جبار بن سلمیٰ کو یہ نظارہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی اور کفر تاریکی اس کے نہاں خانہ باطن سے کافور ہوگئی۔
ابن سعدؒ کا بیان ہے کہ جبار بن سلمیٰ اسی واقعہ سے متاثر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوگئے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عمرؓ بن امیہ الضمری کو مشرکین نے زندہ گرفتار کر لیا اور پھر عامر بن طفیل نے اپنی ماں کی ایک منت پوری کرنے کے لیے انہیں رہا کر دیا۔ وہ انہیں ساتھ لے کر صحابہؓ کے مقتل کی طرف گیا اور ایک لاش کی طرف اشارہ کرکے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ حضرت عمرؓو بن امیہ نے جواب دیا: ’’عامرؓ بن فہیرہ‘‘ عامر بن طفیل نے کہا کہ میں نے ان کو قتل ہونے کے بعد دیکھا کہ آسمان کی طرف اٹھا لیے گئے، یہاں تک کہ آسمان اور زمین کے درمیان معلق نظر آئے، پھر ان کی لاش کو زمین پر رکھ دیا گیا۔
اسد الغابہ میں حضرت عروہؒ کا یہ بیان درج ہے کہ شہداء بیئر معونہ میں حضرت عامرؓ فہیرہ کی لاش تلاش کی گئی تو نہیں ملی۔ اس پر لوگوں نے خیال کیا کہ ان کی لاش کو فرشتے اٹھا کر لے گئے۔ سرور دوعالمؐ کو اس الم ناک واقعہ کی خبر ہوئی تو آپؐ کو سخت صدمہ ہوا اور آپؐ چالیس دن تک نماز فجر کے بعد قاتلوں کے لیے بددعا کرتے رہے۔
ایک روایت میں ہے کہ واقعہ شہادت کے بعد عامر بن طفیل کلابی نے حضرت عمروؓ بن امیہ الضمری سے پوچھا کہ کیا تو اپنے تمام ساتھیوں کو پہچانتا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں سب کو جانتا ہوں۔ چنانچہ عامر بن طفیل حضرت عمروؓ کو ساتھ لے کر شہداء کی لاشوں کے درمیان پھرنے لگا۔ وہ حضرت عمروؓ سے ہر ایک شہید کا نام و نسب دریافت کرتا جاتا تھا۔ جب سب لاشوں کا نام و نسب دریافت کرچکا تو حضرت عمروؓ سے پوچھا: ان میں کوئی نہیں ہے یا سب کی لاشیں موجود ہیں؟
حضرت عمروؓ نے فرمایا: ان میں عامرؓ بن فہیرہ نہیں ہیں۔ عامر بن طفیل نے پوچھا: تم لوگوں میں وہ کیسا شخص تھا؟ حضرت عمروؓ بن امیہ نے فرمایا: وہ ہم لوگوں میں سب سے افضل اور ہمارے نبی کریمؐ کے اولین صحابہ میں سے تھے۔
یہ سن کر عامر بن طفیل نے جبار بن سلمیٰ کلابی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس نے اس کو نیزے کی ضرب لگائی، جب نیزے کو اس کے جسم نے کھنیچا تو ایک شخص مقتول کو اٹھا کر آسمان کی طرف لے گیا۔ اس کے بعد میں نے اسے نہیں دیکھا۔ حضرت عمروؓ بن امیہ فوراً پکار اٹھے: وہ عامرؓ بن فہیرہ ہی تھے اور وہ ایسے ہی شخص تھے۔
جبار بن سلمیٰ کلابی قاتل عامرؓ بن فہیرہ سے روایت ہے کہ جب میں نے عامرؓ بن فہیرہ کو نیزہ مارا تو انہوں نے کہا: ’’بخدا میں کامیاب ہوگیا‘‘ میں یہ نہ سمجھ سکا کہ ایسا کہنے سے ان کی کیا مراد ہے۔ چنانچہ میں ضحاکؓ بن سفیان کلابی کے پاس گیا جو رسول اقدسؐ کی طرف سے بنو کلاب کے عامل تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ’’بخدا میں کامیاب ہوگیا‘‘ کہنے سے مقتول کی کیا مراد تھی؟ ضحاکؓ نے کہا کہ ان کی مراد یہ تھی کہ اس طرح شہادت پانے سے مجھے جنت مل گئی۔ (اور میں اپنے مقصد زندگی میں کامیاب ہوگیا۔) پھر ضحاکؓ نے مجھے دعوتِ اسلام دی تو میں نے اسلام قبول کرنے کا اقرار کیا، لیکن میرے قبول اسلام کا اصل سبب وہ ماجرا ہے، جو میں نے عامرؓ بن فہیرہ کی شہادت کے بعد اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
شہادت کے وقت حضرت عامرؓ بن فہیرہ کی عمر بہ اختلاف روایت 34 برس یا چالیس برس کی تھی۔ انہوں نے اپنے پیچھے کوئی اولاد نہیں چھوڑی۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post