ٹرمپ نے طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے

0

واشنگٹن(امت نیوز)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اور پنٹا گون کو افغانستان سے فوجی انخلا کی منصوبہ بندی کے احکامات جاری کر دیے ہیں ۔ پہلے مرحلے میں فروری سے7 ہزار فوجیوں کی واپسی ممکن ہے۔شام کے بعد افغانستان سے انخلا کا اعلان سامنے آنے پر امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس مستعفی ہو گئے ہیں ۔امریکی صدر نے ٹویٹ کے ذریعے میٹس کے استعفے کی منظوری کا اعلان کر دیا ہے ،تاہم ان کے جانشین کا اعلان نہیں کیا گیا ۔ امریکی پٹھو کابل میں حکومت چلانے والی اشرف غنی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے ٹرمپ کے فیصلے پر کوئی تشویش نہیں ہے ۔روسی حکومت نے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان سے فوجی انخلا کا حکم دیدیا ہے ،جس کے تحت پہلے مرحلے میں7ہزار فوجی بلائے جائیں گے۔واپس بلائے جانے والے فوجیوں کی تعداد افغانستان میں موجود امریکی فوج کی کل تعداد کا نصف ہے۔ممکنہ طور پر افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی فروری2019 میں شروع ہوگی۔ امکان ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے اسٹیٹ آف یونین خطاب میں با ضابطہ اعلان کریں گے۔امریکہ کی جانب سے یہ فیصلہ 17برس بعد پہلی بار طالبان سے براہ راست مذاکرات کے بعد کیا گیا ۔اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق ٹرمپ نے پنٹا گون کو افغانستان سے آئندہ مہینوں میں7 ہزار فوجی نکالنے کا حکم دیا ہے ۔حکام کے مطابق اس ضمن میں مدت پر غور کیا جا رہا ہے۔ابھی یہ واضح نہیں کہ افغانستان میں باقی رہ جانے والے امریکی فوجی افغان اہلکاروں کی عسکری تربیت،زمینی کارروائی میں مدد،طالبان و دیگر گروہوں کیخلاف بمباری کیسے کریں گے۔نیویارک ٹائمز کے مطابق باقی رہ جانے والے فوجیوں کی واپسی کے شیڈول پر بھی غور جاری ہے۔ امریکی فوج میں کمی کے فیصلے سے لگتا ہے کہ ٹرمپ کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔دوسری جانب شام کے بعد افغانستان سے امریکی فوج واپس بلانے کے اعلان پر وزیر دفاع جیمز میٹس ٹرمپ سے ناراض ہو گئے ہیں اور انہیں اپنا استعفی بھجوا دیا ہے۔استعفے میں جیمز میٹس نے تحریر کیا کہ امریکی صدر کو اپنا ہم خیال وزیر دفاع رکھنے کا حق ہے اور میرے لیے یہی بہتر ہے کہ میں عہدے سے الگ ہو جاؤں۔انہوں نے استعفے میں ٹرمپ کے اتحادی ملکوں کے احترام کے بارے میں خیالات بیان کیے اور عام دفاع کی فراہمی کیلئے تمام وسائل استعمال کرنے کا ذکر بھی کیا۔ امریکی صدر نے جیمز میٹس کے عہدہ چھوڑنے کی منظوری کا اعلان کرتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ میٹس فروری کے آخر میں اعزاز کے ساتھ ریٹائر ہو جائیں گے۔جیمز میٹس نے اتحادیوں اور دوسرے ممالک کو فوجی ذمہ داریوں کا حصہ ادا کرنے میں میری بہت مدد کی تھی۔ٹرمپ نے جیمز میٹس کے جانشین کا نام نہیں لیا ،تاہم ان کا کہنا تھا کہ نئے وزیر دفاع کا اعلان جلد کر دیا جائے گا۔ میٹس شام سے جلد فوجی انخلا کے مخالف ہیں۔وہ اس فیصلے کواسٹرٹیجک غلطی قرار دیتے رہے ہیں ۔حالیہ امریکی رپورٹ کے مطابق شام میں اب بھی 14ہزار داعش شدت پسند ہیں۔عراق میں یہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ خدشہ ہےکہ داعش اپنا نیٹ ورک دوبارہ بنانے کے لیے گوریلا جنگ کا سہارا لے سکتی ہے۔ ٹرمپ نے فوجی واپسی کے اعلان کے بعد ایک ٹویٹ میں فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کسی کوحیرت نہیں ہونی چاہیے۔اب گھر واپسی کا وقت ہے۔بی بی سی کے مطابق ٹرمپ نے ریٹائرمنٹ کی بات کر کے بات بدلنے کی کوشش کی ،لیکن میٹس نے بطور احتجاج استعفیٰ دیا۔ شام سے امریکی فوج واپس بلانے کے فیصلے پر امریکی سینیٹرز بڑی غلطی کے علاوہ ایران و روس کی فتح قرار دے چکے ہیں ۔ اتحادی ممالک نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔واضح رہے کہ امریکہ نے 2001میں نائن الیون حملوں کے بعد اپنی فوج افغانستان میں اتاری تھی ،تاکہ القاعدہ و اسامہ بن لادن کیخلاف کارروائی کر سکے اور مستقبل میں افغانستان کو مغربی اہداف کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کیلئے استعمال نہ کیا جاسکے۔ 17 برس تک جاری رہنے والی لڑائی میں سیکڑوں امریکی فوجیوں کی ہلاکت بھی واشنگٹن کو خاطر خواہ کامیابی نہ دلا سکی۔امریکی میڈیا کے مطابق افغانستان میں2400سے زائد امریکی فوجی مارے گئے۔دیگر ذرائع کے مطابق مرنے والوں کی تعداد2400سے کہیں زیادہ ہے۔حالیہ برسوں میں افغان طالبان کے زیر قبضہ علاقے میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے ،کئی محاذوں پر افغانستان کی سرکاری فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔عالمی میڈیا کے مطابق امریکی اعلان نے کابل میں موجود ان غیر ملکی سفارت کاروں کو بھی چونکا دیا ہے ،جو 17سالہ تنازع ختم کرنے کی کوششوں میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ کابل میں موجود سینئر غیرملکی عہدیدار کے مطابق طالبان کیلئے کرسمس جلد آ گئی ہے۔خیال رہے کہ اس وقت 14 ہزار امریکی فوجی افغانستان میں ؎ہیں ،جو یا تو نیٹو مشن کیساتھ افغان فوج کی حمایت کے لیے کام کر رہے ہیں یا علیحدہ طور پر دہشت گردی کے خلاف آپریشن کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں افغانستان سے امریکی فوجی واپس بلانے کے فیصلے پر افغان حکومت نے کہا ہے کہ اسے ٹرمپ فیصلے پر کوئی تشویش نہیں۔افغان قومی سلامتی کے ترجمان طارق آرین کا کہنا ہے کہ افغان فوجی مکمل طور پر مسلح و تربیت یافتہ ہیں اور 2014سے زمینی کارروائیاں کر رہے ہیں۔بین الاقوامی فورسز کا کردار تربیت و مدد فراہم کرنا ہے۔امریکی فوج کے نکلنے سے افغان فوج کے حوصلوں پر اثر نہیں پڑے گا۔دوسری جانب طالبان سےمذاکرات کیلئے غنی حکومت کی تشکیل کردہ ٹیم نے طالبان کے ملاقات سے انکار کو سیاسی ناکامی تسلیم کر لیا ہے۔
٭٭٭٭٭
پشاور(رپورٹ:محمدقاسم)افغان طالبان کی شوریٰ کے ایک اہم رکن نے انکشاف کیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک نے کابل پر چڑھائی نہ کرنے کی امریکی درخواست قبول کر لی ہے ۔اب تک طالبان کو افغانستان سے انخلا کے فیصلے سے با ضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیا گیا ۔ باخبر ذرائع کے مطابق صورتحال پر غور کے لئے افغانستان بھر میں موجود طالبان کے عسکری کمانڈروں کا ہنگامی اجلاس بلا لیا گیا۔ طالبان کے جاری اعلامیے کے مطابق وہ غنی حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے ۔متحدہ عرب امارات میں ہونے والے حالیہ مذاکرات میں کابل کے نمائندہ وفد کو مذاکرات میں شامل نہیں ہونے دیا گیا ۔تفصیلات کے مطابق افغان طالبان کی شوریٰ کے اہم رکن ہارون بلخی نےانکشاف کیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک نے کابل پر چڑھائی نہ کرنے کی امریکی درخواست کو قبول کر لیا ہے اور حقانی نیٹ ورک فوری طور پر کابل پر چڑھائی نہیں کرے گا ۔امریکہ نے طالبان کو انخلا کے فیصلے سے اب تک باضابطہ آگاہ نہیں کیا ہے۔ اطلاعات ملی ہیں کہ امریکہ7ہزار فوجی بلا رہا ہے۔ امریکہ سے مکمل معاہدے کے بعد اس کے مزید7 ہزار فوجی بھی واپس چلے جائیں گے۔800امریکی فوجی کابل میں اپنے سفارتخانہ کی حفاظت کیلئے موجود رہیں گے ،تاہم ان کا قیام بگرام کے فوجی اڈے میں نہیں ہو گا ۔’’امت‘‘ کو باخبر ذرائع نے بتایا کہ طالبان نے اپنے کمانڈروں کو کابل اور دیگر صوبوں پر چڑھائی نہ کرنے کی ہدایت کے ساتھ حملوں کی منصوبہ بندی سے بھی روک دیا ہے۔پہلے مرحلے میں قیدیوں کی مرحلہ وار واپسی ہو گی ،جس کے بعد دیگر امور طے کئے جائیں گے ۔ طالبان کی ہلمند شوریٰ کے ایک اہم رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت ‘‘کو بتایا کہ جنگ بندی کی شرط ابھی تک طالبان شوریٰ نے قبول کی ہے نہ طالبان جنگ روکیں گے۔کوشش ہو گی کہ سول نقصانات کو روکا جا سکے ۔ امریکہ کے7ہزار فوجیوں کی واپسی کے سوال پر ہلمند شوریٰ کے رکن کا کہنا تھا کہ امریکہ کے جانے یا نہ جانے سے اب کوئی فرق نہیں پڑتا ۔افغان طالبان اپنی شوریٰ اور کمانڈروں کے صلاح مشورے کے بعد ہی اس پر رد عمل دیں گے ۔اس حوالے سے اہم کمانڈروں کا اجلاس بلا لیا گیا ہے ،جو جلد ہو گا۔دریں اثنا افغان طالبان کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کابل انتظامیہ سے مذاکرات کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کابل انتظامیہ سے مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ابوظہبی میں طالبان کے اعلیٰ سطح کے وفد اور امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد کے درمیان2 روزہ مذاکرات کا اہم ایجنڈا غیرملکی افواج کا انخلا ارامریکی جارحیت کا خاتمہ تھا۔دوسرا نکتہ مستقبل میں افغان سر زمین سے امریکہ و مغرب کی سیکورٹی تشویش تھی ۔ اس پر طالبان وفد نے مضبوط دلائل کے ساتھ بات کی۔ قیدیوں کی رہائی، بلیک لسٹ کا خاتمہ،دفتر کا قیام و کچھ دیگر موضوعات پر بھی بات کی گئی ،تاکہ مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھایا جاسکے ۔اس ضمن میں یہ معاملہ سامنے آیا کہ اس حوالے سے امریکہ پہل کرے، تاکہ مذاکرات کے بارے میں اس کا خلوص سامنے آ سکے۔ اجلاس میں پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بطور مبصر حصہ لیا ۔ ان تینوں ملکوں نے سابق دور میں طالبان کی حکومت تسلیم کی تھی ۔اجلاس کے دوسرے دن کابل انتظامیہ نے بھی ایک وفد بھیجا ،تاہم افغان طالبان کے وفد کی مخالفت پر غنی حکومت کے وفد کو مذاکرات میں شرکت کی اجازت نہ دی گئی ۔ کابل انتظامیہ افغان طالبان کے ساتھ مفاہمت چاہتی ہے تو وہ سب سے پہلے سیکورٹی معاہدہ منسوخ کر کے امریکہ کو واضح اور دو ٹوک جواب دے اور ماضی میں امریکی جارحیت، سیکورٹی معاہدے اور جرائم پر قوم سے معافی مانگے۔ قومی خیانت کے مرتکب، انسانی حقوق کو پامال کرنے والے جرائم پیشہ عناصر کو اسلامی عدالت میں پیش کرنے کا وعدہ کرے۔ پھر ممکن ہے افغان طالبان کابل انتظامیہ کے ساتھ بات کرنے پر غور کریں ۔زلمے خلیل زاد نے اعتراف کیا کہ امریکی طیاروں نے ہر بار بمباری کابل انتظامیہ کے مطالبے پر کی۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More