س: یہ بنیاد پرستی کا جو یورپ اور امریکہ نے چکر چلا رکھا ہے؟
ج: عیسائی لڑکوں کا مقدمہ چل رہا تھا نا۔
س: توہین شان رسالت کے سلسلے میں؟
ج: میرے پاس آیا ہالینڈ کا ایمبیسیڈر، اس ایشو پر بات کرنے کے لئے۔ جس وقت اس نے مجھ سے یہ سوال کیا۔ میں نے اسے کہا، یور ایکسی لینسی کیا آپ FUNDAMENTALIST (بنیاد پرست) ہیں؟ کہتا ہے، نو، نو، نو، نو۔ میں نے کہا، بے شمار پاکستانی مسلمان فرقہ وارانہ مسئلے پر آپس میں لڑ کر ہلاک ہوئے لیکن آپ ان کے بارے میں مجھ سے تفصیلات جاننے کے لئے نہیں آئے۔ اب جب دو عیسائی ایک مقدمے میں ملوث ہیں جو ایک پاکستانی عدالت میں اس قانون کے تحت چل رہا ہے جسے پارلیمنٹ نے وضع کیا تھا اور آپ اس پر بڑے متفکر ہیں۔ کیوں؟ اس کا مطلب ہے کہ آپ بنیاد پرست ہیں۔ چلا گیا۔
میں جب علاج کرانے امریکہ گیا تو وہاں میرا ایک واقف ہے، ہمنٹن، جو چیئرمین ہے کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی کا۔ اسے میں ملا۔ مجھے کئی پاکستانیوں نے کہا کہ صدر فاروق لغاری لاکھوں روپے خرچ کرکے امریکہ آئے تو جس بڑے سے بڑے آدمی سے وہ ملے وہ یہی ہمنٹن تھا۔ اور آپ نے مفتومفت مل لیا ہے۔ واپسی پر اس نے مجھے خط میں لکھا۔ صحت کا پوچھا۔ ساتھ اس نے لکھا کہ رابطہ رہنا چاہئے۔ رابط کیسے رکھیں۔ ہمارا ہنری کسنجر تو ہے گا سردار آصف احمد علی۔ اسے میں نے کہا کہ بے نظیر نے آپ کو بڑے برے کام دیئے ہیں۔ کہتا ہے کیوں؟ میں نے کہا، ہنری کسنجر یہودی تھا۔ خیر، اس کے بعد میں چلا گیا اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں یہ میری طویل ترین میٹنگ تھی۔ دو گھنٹے کی۔ ایک گھنٹہ انہوں نے لگایا مرزائیوں کے ایشو پر۔ ظاہر ہے کہ میں کوئی مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری تو ہوں نہیں۔ میں نے کہا، بات یہ ہے کہ جھگڑا بڑا معمولی سا ہے۔ تو ہے گا کرسچین۔ حضرت عیسیٰؑ کو آپ مانتے ہیں۔ میں نے کہا، میرے مسلمان ہونے کی شرط بھی یہ ہے کہ میں حضرت عیسیؑ کو مانوں۔ اس کے علاوہ بھی میں کچھ اور مانتا ہوں، جو تو نہیں مانتا۔ اگر کل میں کہوں کہ میں عیسائی ہوں۔ کیا آپ اسے تسلیم کرلیں گے؟ کہتا ہے، نو۔ میں نے کہا، یہی جھگڑا ہے مرزائیوں کا۔ وہ ہمارے نبیؐ کو بھی مانتے ہیں۔ سارے نبیوںؑ کو بھی مانتے ہیں۔ ایک اور کو بھی مانتے ہیں۔ میں نے کہا، جھگڑا یہ ہے سارا۔ دوسرا، میں نے کہا، پیدا کیا ہے سر ظفر اللہ نے کہ قائداعظمؒ کا جنازہ نہ پڑھا۔ میں نے کہا، کوئی سال کی بات ہے، ان کے خلیفہ نے ٹورنٹو میں تقریر کی۔ اس میں اس نے کہا تھا کہ جو نبی نہیں مانتے غلام احمد کو وہ کافر ہیں۔ میں نے کہا، وہ تو مانتے نہیں، آپ کو کیا تکلیف ہے۔ آپ بلائیں کسی مرزائی کو۔ میرے سامنے بٹھائیں۔ وہ مجھے مسلمان مان لے، پھر میں آپ کے ساتھ سیریس بات کروں گا۔ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ ہم 99 فی صد ہیں۔ وہ پوائنٹ ون پر سنٹ ہیں۔ ظاہر ہے، ہم نے کہا، تم کافر ہو۔ انہیں بنادیا۔ مجھے کہتا ہے، آپ انہیں مسلمان نہیں مانتے۔ میں نے کہا، نہیں مانتا۔ میں نے کہا، آپ وہ تقریر منگوا لیں ٹورنٹو والی۔ آج کے بعد خبردار کسی پاکستانی کے ساتھ یہ بحث کی۔ آپ کو پتہ ہی نہیں اس بات کا۔
س: 54 ء میں جب گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلی توڑی ہے اور اسپیکر مولوی تمیزالدین خاں گورنر جنرل کے اس اقدام کو چیلنج کرتے ہیں۔ آپ نے کہا ہے کہ بڑے وکیل جو تھے انہوں نے انکار کر دیا تھا وکالت کرنے سے۔ اس وقت کس نے انکار کیا تھا۔
ج: انکار کیا۔ پھر ایک وکیل نے رضامندی کا اظہار کیا، تو اس زمانے میں اس نے مانگے پچاس ہزار روپے۔ ہمارے پاس تو پچاس ہزار تھے نہیں۔ میں تو ابھی نہیں تھا وکالت میں۔ سردار نشتر مرحوم کہتے ہیں کہ چلو برخوردار ہم خود ہی وکالت کرتے ہیں۔ سردار صاحب بہت اچھے آدمی تھے لیکن بطور وکیل اتنے زیادہ نہیں تھے۔
س: پریکٹس کرنے کا انہیں صحیح معنوں میں موقع ہی نہیں ملا۔
ج: پیسے ہی نہیں تھے ہمارے پاس کیا کرتے۔ وکیل کدھر سے لاتے۔ تمیزالدین کیس والی بات ہے۔
س: 54ء والی۔
ج: ہاں۔ پھر شریف الدین پیرزادہ رضامند ہوئے بعد میں۔ پٹیشن فائل ہو چکی تھی۔ انہوں نے ہماری وکالت کی۔ پیسہ ویسہ نہیں لیا، لیکن حضور ایسا بھی ہوا کہ وکیلوں کو کورٹ میں جانے سے روک دیا گیا۔ ایک دن برقعہ پہن کے وکیل کورٹ میں گیا۔ سندھ چیف کورٹ۔ یہ پرانا چل رہا ہے سلسلہ۔ میں کبھی کبھی منیر یہ سوچتا ہوں، ایمانداری کی بات ہے، جس دن یہ اسمبلی DESOLVE (برطرف) ہوئی مجھے اس کا نقصان نہیں۔
س: ذاتی نقصان نہیں۔
ج: ذاتی نقصان کوئی نہیں، لیکن اس کے ٹوٹنے کی خوشی نہیں۔ میں لاہور میں تھا۔ دو بجے۔ منیر صاحب، مجھے رات کے دو بجے EXACTLY (بالکل)، مجھے ٹیلی فون آیا چٹھہ صاحب کا۔ میں سویا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا، جی اسمبلی ٹوٹ گئی ہے۔ صبح دس بجے ملنا ہے۔ اسلام آباد پہنچیں۔ میں نے کہا، بہت اچھا۔ میں لیتا تو میری بیوی کا ٹیلی فون آگیا اسلام آباد سے، کوئی ڈھائی بجے۔ وہاں اس سلسلے میں ٹیلی فون بہت سے آئے تھے۔ میں نے کہا، مجھے تفصیلات کا پتہ نہیں۔ کوئی بات نہیں میں صبح آئوں گا۔ تین بج کر دس منٹ پر مجھے نیویارک سے ٹیلی فون آیا، مجھے تفصیلات کا پتہ نہیں۔ کوئی بات نہیں میں صبح آجائوں گا۔ تین بج کر دس منٹ پر مجھے نیویارک سے ٹیلی فون آیا، کچھ دوستوں کا کہ اسمبلی ٹوٹ گئی ہے۔ میں نے ایئرپورٹ پر ٹیلی فون کیا۔ انہوں نے کہا، جی ساڑھے چھ بجے فلائٹ جاتی ہے۔ ہم صبح پانچ بجے اٹھے۔ نماز پڑھی۔ نہائے۔ شیو کی۔ کپڑے تبدیل کئے۔ پہنچ گئے۔ وہاں میں نے سین دیکھا۔ میرے سامنے ایوب خان کا مارشل لا رہا۔ میرے سامنے یحییٰ خاں کا مارشل لا بھی آیا۔ میرے سامنے ضیا الحق کا بھی آیا۔ ہماری اپنی (اسمبلی) بھی ٹوٹی تھی (88ء میں)۔ عجیب خوفناک سین میں نے دیکھا لاہور ایئرپورٹ پر۔ ایئرپورٹ کے باہر کافی دور تک فوج کی گاڑیاں کھڑی ہیں۔ آگے کسی گاڑی کو جانے نہیں دے رہے۔ میں نے سوچا ٹائم تھوڑا رہ گیا ہے۔ مجھے یہ نہیں پتہ تھا کہ انہوں نے جانے ہی نہیں دینا۔ میں نے اپنے NEPHEW (بھتیجے) سے کہا کہ آپ نے جانا نہیں۔ میرا انتظار کرنا۔ میں اندر چلا گیا۔ اتفاق کی بات ہے، میں گزر گیا۔ کسی نے پوچھا نہیں۔ چلتا چلتا میں وی آئی پی لائونج میں پہنچ گیا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ عجیب GLOOMY سا ATMOSPHERE (اداس سا ماحول) ہے۔ پی آئی اے کے جتنے بندے ہیں وہ خوف زدہ ہیں۔ اب وہ بات نہ کریں مجھ سے۔ میں نے جاکے ٹکٹ دیا۔ انہوں نے اشارے سے مجھے کہا، یہاں رکھ دو۔ میں نے رکھ دیا۔ اب وہ بت بنے بیٹھے ہیں۔ کچھ باوردی لوگ تھے لائونج کے اندر اور باہر۔ میں نے اسے کہا، مجھے بورڈنگ کارڈ دیں میں اندر چلا جائوں۔ اس دوران میں اس بندے نے یوں جیسے ڈر کے مجھے کہا کہ جی وہ جو تیسرے صوفے کے پیچھے ہندو بیٹھا ہے اس سے بات کریں۔ میں اٹھا کبھی IGNORANCE (لاعلمی) بھی بندے کو بہادر کر دیتی ہے۔ میں چلا گیا۔ میں نے اسے کہا، میں نے اسلام آباد جانا ہے۔ کیا آپ سے پرمیشن لینی ہے میں نے۔ اس نے کہا، آپ نہیں جا سکتے۔ میں نے کہا، یار میں کوئی ممبر شمبر نہیں ہوں، نہ میں وزیر ہوں۔ وہ بندہ ہنس پڑا۔ I DON’T KNOW WHAT WAS HIS NAME (مٰن اس کا نام تک نہیں جانتا)۔ وہ کہنے لگا، خاں صاحب آپ کو کون نہیں جانتا۔ YOU ARE MORE THAN A MEMBER, I AM VERY SORRY, (آپ ایک ممبرسے بھی زیادہ اہم ہیں لیکن مجھے افسوس ہے) اجازت نہیں ہے۔ میں نے کہا، یار کوئی منطقی فیصلے بھی کیا کرو۔ اگر میں نے لندن کی فلائٹ پر جانا ہو تو سمجھ آتی ہے۔ لاہور سے اسلام آباد جانا ہے۔ یہ کیا۔ میں بائی روڈ بھی جا سکتا ہوں۔ اس پر تو پابندی نہیں ہے۔ وہ کہتا ہے، جی اب کیا کریں۔
س: آرڈر اوپر سے آئے ہیں۔
ج: چنانچہ میں واپس آگیا۔ میرا NEPHEW (بھتیجا) تھا باہر۔ گھر پہنچے۔ چٹھہ صاحب کو ٹیلی فون کیا کہ آنے کا کوئی پروگرام نہیں۔ اس کے بعد میرے لاہور کے ٹیلی فون بھی بند ہو گئے اور یہاں (اسلام آباد) کے بھی بند ہو گئے۔
س: وہ شخص فوجی تھا۔
ج: پتہ نہیں۔
س: سویلین لباس میں تھا۔
ج: میں سوچتا ہوں یا مولا کریم۔ میں نے کیئوں سے بات کی کہ کیا قصور کیا۔ قائداعظمؒ تو بہت بڑے آدمی تھے۔ اور پاکستان موومنٹ کے جو لوگ ہیں شاید کسی کے متعلق آپ متعلق آپ تلاش نہ کر سکیں کہ کوئی اس نے کیا ہو جواب چیزیں ہیں۔
س: گڑبڑ کی ہو۔
ج: ظاہر ہے۔ اندر سے تو پتہ نہیں کتنا گنہگار ہوں گا۔ میں سوچتا ہوں یا مولا کریم کیا ہو گیا ہے پاکستان کو۔ سمجھ نہیں آتی۔ یعنی ہر چوتھے دن کوئی نہ کوئی نیا مسئلہ۔ ابھی آپ کے سامنے جو ٹیلی فون آیا تھامدینہ منورہ سے، دوست تھا۔ بزرگ تھا۔ میں نے اسے کہا، دعا مانگیں کہ پاکستان کے عوام کے گناہ معاف ہو جائیں۔ افراد کو دیں سزا جو بھی دینی ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post