حضرت ام ایمنؓ رسول کریمؐ کے والد ماجد کی لونڈی تھیں۔ انہوں نے بچپن میں نبی کریمؐ کی بڑی خدمت کی ہے، آپؐ انہیں ماں کہہ کر پکارتے تھے۔ ان کی بعض کرامات کا تذکرہ تاریخ میں ملتا ہے۔ طبقات ابن سعد میں مذکور ہے کہ حضرت ام ایمنؓ کو سفر ہجرت کے دوران شدید پیاس لگی، ہونٹوں پہ پیڑیاں جم گئیں، حلق میں کانٹے چبھنے لگے، جان لبوں پہ آگئی، قرب و جوار میں پانی کے کہیں کوئی آثار دکھائی نہ دے رہے تھے۔ قریب تھا کہ آپ پر غشی کا دورہ پڑ جاتا۔ اچانک کیا دیکھتی ہیں کہ آسمان سے ایک ڈول آہستہ آہستہ ان کی طرف نیچے اتر رہا ہے، اس کے ساتھ نہایت ہی سفید رنگ کی رسی بھی بندھی ہوئی ہے۔ ڈول ان کے چہرے کے سامنے آکر رک گیا۔ آپؓ نے اسے پکڑا، اپنے منہ سے لگایا اور جی بھر کر اس سے پانی پیا۔ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد زندگی بھر مجھے کبھی بھی شدید پیاس کا احساس نہیں ہوا۔ میرے سینے میں ایک خوش گوار ٹھنڈک نے ڈیرے جمالیے۔
اس واقعے کا ذکر مشہور مورخ اور تذکرہ نگار ابو نعیم اصفہانی نے اپنی کتاب حلیۃ الاولیاء میں بھی کیا ہے۔ وہ رقم طراز ہیں کہ حضرت ام ایمنؓ وہ نیک دل، پاکیزہ سیرت، خوف خدا کی خوگر، روزے دار اور شب زندہ دار خاتون تھیں کہ جب وہ رضائے الٰہی کے حصول کے لیے مدینہ منورہ کی جانب پیدل سفر ہجرت پر رواں تھیں تو انہیں راستے میں پیاس نے ایسا ستایا کہ موت دو قدم پر سامنے نظر آنے لگی تو خدا سبحانہ و تعالیٰ نے آسمان سے ٹھنڈے میٹھے پانی کا ڈول نازل کیا جو ان کے لیے شافی و کافی ہوا۔
حضرت ام ایمنؓ نے رسول اقدسؐ کی راہنمائی میں جہاد میں بھی بھر پور حصہ لیا۔ غزوئہ احد میں مجاہدین کو پانی پلانے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے کے فرائض انتہائی تن دہی اور جاں فشانی سے سر انجام دیئے۔ غزوئہ خیبر میں بیس خواتین نے حصہ لیا، جن میں حضرت ام ایمنؓ بھی شامل تھیں۔ ان کے بیٹے ایمنؓ اپنے گھوڑے کے بیمار ہونے کی وجہ سے شریک نہ ہوسکے تو انہوں نے اپنے بیٹے کو بزدل قرار دیا۔ شاعر اسلام مداح رسولؐ حضرت حسان بن ثابتؓ نے اس موقع پر اشعار بھی کہے۔ جن میں یہ وضاحت کی کہ حضرت ایمنؓ کا غزوئہ خیبر میں شریک نہ ہونا کسی بزدلی کی وجہ سے نہیں، بلکہ ان کا گھوڑا زہریلا آٹا کھانے کی وجہ سے بیمار ہوگیا تھا، جس کی دیکھ بھال کی وجہ سے وہ اس اعزاز سے محروم رہ گئے۔
غزوئہ حنین میں یہی جوان مرد، بہادر اور نڈر مجاہد حضرت ایمنؓ داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ غزوئہ حنین میں جب لشکر اسلام کے پائوں اکھڑ گئے تھے تو چند ایک صحابہ کرامؓ رسول اقدسؐ کے ساتھ جمے رہے، جن میں حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت فاروق اعظمؓ، حضرت علیؓ بن ابی طالب، حضرت عباسؓ بن عبد المطلب، حضرت ابو سفیانؓ بن حارث بن عبدالمطلب، حضرت حارثہؓ بن نعمان، حضرت اسامہؓ بن زید اور حضرت ایمنؓ بن عبید خزرجی قابل ذکر ہیں، جو میدان میں ڈٹے رہے، جن کے پایۂ استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ جنہوں نے بہادری، جوانمردی اور شجاعت کی مثال قائم کی۔
غزوئہ حنین میں لشکر اسلام پر بڑا بھاری وقت آیا، مجاہدین کے پائوں اکھڑ گئے، لشکر بوکھلا کر بکھر گیا، زمین کا دامن اپنی تمام تر کشادگیوں کے باوجود تنگ ہوگیا۔ اس نازک ترین وقت میں رسول اقدسؐ نے مجاہدین کا حوصلہ بلند کرنے کے لیے کمال جرأت و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا۔
اَنَا النَّبِیُّ لاَ کَذِبْ
اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ
میں نبی ہوں، کوئی جھوٹ نہیں۔ میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں، یعنی میدان میں ڈٹا ہوا کھڑا ہوں، کوئی مذاق کی بات نہیں۔
حضرت ام ایمنؓ کے بیٹے حضرت ایمنؓ اسی میدان میں شہید ہوئے، جس پر حضرت ام ایمنؓ نے خدا کی رضا کو پیش نظر رکھتے ہوئے صبر و تحمل کا انداز اپنایا۔
غزوئہ موتہ میں حضرت زید بن حارثہؓ کو امیر لشکر بنا کر بھیجا گیا اور رسول اقدسؐ نے ارشاد فرمایا: اگر زید بن حارثہؓ شہید ہو جائے تو جعفرؓ بن ابی طالب کو امیر لشکر بنا لیا جائے۔ یہ شہید ہو جائے تو عبد اللہؓ بن رواحہ کو امیر لشکر قرار دے دیا جائے۔ یہ بھی شہید ہو جائے تو مجاہدین جسے چاہیں، اپنا امیر بنا لیں۔ حق تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ تینوں یکے بعد دیگرے شہید ہوئے۔
حضرت ام ایمنؓ نے اپنے سرتاج حضرت زید بن حارثہؓ کی شہادت کا صدمہ صبر و تحمل سے برداشت کیا اور اپنے بیٹے اسامہ بن زیدؓ کو بھی صبر و تحمل کی تلقین کی۔
٭٭٭٭٭
Next Post