چند وروز بعد اس ضعیف العمر مسلمان کا معصوم پوتا بھی جان سے گزر گیا۔ اس اطلاع کے بعد میں نے اپنی تمام فکری تاویلات کو نئے سرے سے اپنے دماغ میں جمع کیا تاکہ اس کے حال کا اندازہ کروں۔ میں بڑی بے قراری کے عالم میں اس کے پاس گائوں پہنچی۔ مجھے یقین تھا کہ اب لاوارث بوڑھا اپنی تمام دنیا کو ختم کرچکا ہوگا۔ اس کے حواس ہوش سے بیگانہ ہوں گے۔ اس کا دل و دماغ مقفل ہوگا اور یاس اس کی امید کے تمام رشتے منقطع کرچکی ہوگی۔
یہی توقعات ساتھ لے کر میں بوڑھے کے مکان میں داخل ہوئی اور نہایت ہی دل سوزی سے اس کے مصائب پر غم کا اظہار کیا۔ مجھے یہ معلوم کرکے بے حد حیرت ہوئی کہ میرے اظہار افسوس کا بوڑھے کے دل پر کچھ بھی اثر نہ تھا۔ وہ بڑی بے تکلفی سے بیٹھا تھا اور نہایت ہی غیر متاثر حالت میں میری گفتگو سن رہا تھا۔ جب میری گفتگو ختم ہوگئی تو اس نے زبان کھولی پہلے کی طرح پھر اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھا دی اور کہا:
’’میم صاحبہ، یہ خدا کی حکمت کے کھیل ہیں۔ اس نے دیا تھا، واپس لے لیا۔ اس میں ہمارا کیا تھا، جس پر ہم اپنے دل کو برا کریں، بندے کو ہر حال میں اپنے خدا کا شکر ادا کرنا واجب ہے۔ ہم مسلمانوں کو یہی حکم ہے کہ حق تعالیٰ کی رضا پر راضی رہیں۔‘‘
اب لیڈری بارنس درد دل کی کیفیتوں سے لبریز تھیں۔ انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھایا اور روتی ہوئی آواز میں علامہ اقبالؒ سے کہا: ’’ڈاکٹر صاحب! بوڑھے کا یہ جواب میرے لیے قتل کا پیغام تھا۔ اس کی انگلی آسمان کی طرف اٹھی ہوئی تھی اور تیر بن کر میرے دل کو کرید رہی تھی۔ اس وقت میں نے اس مرد ضعیف کی پختگی ایمان کے سامنے ہمیشہ کے لیے اپنا سر جھکا دیا۔ مجھے یقین حاصل ہوگیا کہ یہ اطمینان قلب، مصنوعی نہیں، بلکہ حقیقی ہے۔
میں نے کہا اے میرے بوڑھے باپ، اب تم اکیلے اس گائوں میں رہ کر کیا کرو گے؟ میرے ساتھ ہوٹل میں چلو اور آرام سے زندگی بسر کرو۔ بوڑھے نے میری اس دعوت کا شکریہ ادا کیا اور بے تکلف میرے ساتھ ہوٹل میں چلا آیا۔ یہاں وہ دن بھر ہوٹل کی خدمت کرتا اور رات کو خدا کی یاد میں مصروف ہو جاتا۔
کچھ عرصے بعد اس نے کہا کہ میں آج قبرستان جائوں گا۔ میرے دل میں پھر وہی امتحان لینے کی لٹک پیدا ہوئی۔ دل نے کہا یہ دیکھنا چاہیے کہ وہاں اس کے صبر و تحمل پر کیا گزرتی ہے؟ بوڑھا ہوٹل سے نکل کر اس خاموش اور ویران مقام کی طرف آیا، جہاں اس کے تینوں عزیز مدفون تھے۔
میں ایک طرف کھڑی ہوگئی اور وہ قبرستان پہنچتے ہی پریشان حال قبروں کو درست کرنے میں مصروف ہوگیا۔ وہ مٹی کھود کھود کر لاتا تھا اور قبروں کو درست کرتا تھا۔ اس کے بعد وہ پانی لے آیا اور ان پر چھڑکائو کرنے لگا۔ جب قبریں درست ہوگئیں تو بوڑھے نے وضو کیا، ہاتھ اٹھائے اور اہل قبرستان کے حق میں دعا کی اور واپس چل دیا۔
میں نے اس تمام عرصے میں نہایت احتیاط سے اس کی تمام حرکات کو دیکھا اور محسوس کیا کہ اس کے ہر کام میں اطمینان کا نور اور ایمان کی پختگی جلوہ گر ہے۔ اب میرے دل پر ایک غیبی نشتر چلا اور مجھے محسوس ہوا کہ یہ بوڑھے کی خوبی نہیں، بلکہ یہ اس دین حق کی خوبی ہے، جس کا یہ بوڑھا پیروکار ہے۔ میں نے مسلمان ہونے کا فیصلہ کرلیا اور ہوٹل میں پہنچ کر اس مرد بزرگ سے کہا کہ وہ کوئی ایسی عورت بلا لائے، جو مجھے اسلام کی تعلیم دے۔ وہ فی الفور اٹھا اور اپنے مولوی صاحب کی لڑکی کو بلا لایا۔ اس نے مجھے خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانے کی ترغیب دی اور کلمہ طیبہ کا سبق سکھایا۔
ڈاکٹر صاحب! اب میں خدا تعالیٰ کے فضل و رحمت سے مسلمان ہوں اور وہی عظیم الشان قوت ایمان جس سے بوڑھے کا دل سرشار تھا، اپنے سینے میں موجود پاتی ہوں۔ اب مجھے اپنے خدا پر اس قدر پختہ ایمان ہے کہ خواہ کس قدر بھی مصیبت آئے، میرے قدموں کو کبھی لغزش نہیں ہوسکتی۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post