پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے دوستی کی پیشکش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ امن سب کے حق میں ہے۔ تمام تنازعات کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ جنگیں تباہی اور موت کے سوا کچھ نہیں لاتیں۔ ہمیں آپس میں ایک دوسرے سے لڑنے کے بجائے بھوک، بیماری اور جہالت کے خلاف جنگ کرنی چاہئے۔ پڑوسی ملک سے اتنی جنگوں کے باوجود ہم یہیں ہیں اور انشا اللہ یہاں سے کہیں نہیں جائیں گے۔ پاکستان نے بہت بھاری قیمت چکا کر اپنی سر زمین پر امن قائم کیا ہے، لیکن دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ابھی باقی ہے۔ پاک آرمی چیف نے پاکستان کی پوزیشن واضح کرتے ہوئے بھارت سے ایک بار پھر وہی کچھ کہا ہے جو پاکستان کی حکومتیں اور فوجی سربراہ کہتے چلے آئے ہیں اور یہ اعادہ دراصل پاکستان کا مستقل اصولی مؤقف ہے، جس میں حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود کوئی فرق نہیں آیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے بھارت، دوسرے پڑوسی ممالک اور پوری عالمی برادری کے سامنے حق اور امن کی بنیاد پر ہمیشہ اصولی مؤقف اپنایا ہے، جس میں ہمیں کبھی کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی برسر اقتدار آتے ہی بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے پیشکش کی کہ بھارت اگر خطے میں امن و استحکام کی خاطر ایک قدم آگے بڑھائے گا تو ہم اس کی جانب دو قدم بڑھیں گے۔ یہ بیان محض رسمی اور روایتی نہیں، بلکہ پاکستان نے تو کئی بار ازخود بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا، لیکن اس نے کوئی مثبت ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے پاکستان کے ساتھ ہر مرتبہ مخالفانہ و مخاصمانہ رویہ ہی رکھا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ امن سب کے حق میں ہے۔ مسائل کو حل کرنے کا بہترین ذریعہ باہم گفت و شنید ہے۔ جنگوں کے ذریعے تنازعات طے نہیں ہوتے، بلکہ ان کے نتیجے میں ہلاکتوں اور تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تین بڑی جنگیں ہوچکی ہیں، لیکن کسی کا نتیجہ دونوں میں سے کسی ایک ملک کو فائدے کی صورت میں حاصل نہیں ہو سکا۔ اب تو دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، جن کے خوف سے جنگ ٹلی ہوئی ہے، دونوں ملکوں کو معلوم ہے کہ جنگ میں پہل کوئی بھی کرے، دونوں کی تباہی لازمی ہے۔ بھارت پاکستان سے پانچ گنا بڑا ملک ہے، لہٰذا اس کا نقصان ناقابل تلافی ہوگا۔ پاکستان اور بھارت بیش بہا قدرتی وسائل کے باوجود آزادی کے ستر سال بعد بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل نہیں ہوسکے، جس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ دونوں اپنے بجٹ کا بہت بڑا حصہ اسلحے کے حصول اور دفاعی تیاریوں پر خرچ کرتے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ مشورہ نہایت بروقت اور صائب ہے کہ ہم اتنی جنگیں لڑنے کے بعد بھی کچھ حاصل نہ کرسکے تو کیوں نہ اپنے وسائل کو بھوک، امراض اور جہالت کے خلاف استعمال کرکے اپنی قوموں کو خوشحال، توانا اور ترقی یافتہ بنائیں۔ پاکستان نے دشمنوں کی تمام تر سازشوں اور کارروائیوں کے باوجود اپنی سر زمین کو دہشت گردوں سے پاک کرکے امن کا قیام ممکن کر دکھایا ہے، تاہم اسے اب بھی اندرونی و بیرونی دہشت گردی کا سامنا رہتا ہے۔ ایک طرف بھارت نے پاکستان کے ساتھ مستقل دشمنی کا رویہ اختیار کر رکھا ہے، دوسری طرف افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت اور اس کی سرپرست غیر مسلم مغربی قوتیں پاکستان کو کمزور اور غیر مستحکم کرنے کے درپے رہتی ہیں۔ افغانستان کے علاوہ ایران بھی پاکستان کا برادر پڑوسی ملک ہے، جس کے پاکستان سے گہرے مذہبی، تاریخی، تہذیبی و ثقافتی روابط ہیں۔ اس کے باوجود محض فروعی و مسلکی اختلاف کی بنیاد پر اس کا رویہ پاکستان کے لئے کبھی کبھار ناقابل تصور اور ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ صرف چین ایک ایسا ملک ہے جو ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ اگر بھارت اور افغانستان اپنی دہشت گردی کو پاکستان کی جانب منتقل نہ کریں تو اس میں ان کا بھی بھلا ہے اور خطے میں امن و استحکام میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تمام تنازعات کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر طے کرنے کو مسائل کا حل قرار دیا ہے، جو بدیہی طور پر درست ہے، لیکن بھارت ہٹ دھرمی اختیار کرکے مذاکرات پر کبھی آمادہ نہ ہو اور دونوں ملکوں کے درمیان کلیدی مسئلہ کشمیر ہی کو حل نہ کرنا چاہے تو پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی رٹ لگانا لاحاصل ہے۔ جو ملک اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو خاطر میں نہ لائے اور پاکستان کے ساتھ تنازعات پر کسی بھی ملک کی ثالثی قبول کرنے کو بھی تیار نہ ہو تو پاکستان کی حکومت اور افواج کو بالآخر دیگر ذرائع اختیار کرنے پڑیں گے۔ ہم دوستی کا ہاتھ بہت بڑھا چکے۔ اب بے تعلقی اور تیز رفتار سفارتی سرگرمیوں کے ذریعے ہی بھارت کو راہ راست پر لایا جاسکتا ہے۔
یہ ہرزہ سرائی نہیں، نری جہالت ہے
تحریک انصاف کی حکومت نے جن ہیرے جواہرات کو وزیر و مشیر مقرر کیا ہے، ان میں سے کئی ایک اپنی بچگانہ حرکتوں اور لایعنی باتوں کے ذریعے اس کے لئے نہ صرف ذلت و رسوائی کا سبب بن رہے ہیں، بلکہ عوام سے فاصلے پیدا کرکے حکومت کے لئے نت نئی رکاوٹیں پیدا کررہے ہیں۔ وزیر خزانہ اسد عمر کے دعوؤں اور معروضی حقائق میں تضاد پوری طرح نمایاں ہوکر سامنے آگیا ہے۔ عام لوگوں کو معمولی سہولت فراہم کئے بغیر پے درپے ان پر مہنگائی کے ہتھوڑے برسا کر انہیں اب تک وعدوں پر ٹرخایا جارہا ہے کہ بس کچھ دن اور صبر کرلیں، اس کے بعد ملک میں ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے فرائض میں شاید یہ تو شامل نہیں کہ وہ اپنی حکومت کی کارکردگی سے قوم کو آگاہ کریں، البتہ وہ سابقہ حکومتوں اور مخالفین پر شب و روز تبریٰ بھیجنے پر مامور سمجھے جاتے ہیں۔ اپنے سارے وزیروں کو پاس کرنے اور پنجاب حکومت کو شاباش دینے والے وزیراعظم عمران خان کو ذرا بھی اندازہ نہیں کہ وہ خود تو پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کی بات کرتے ہیں، لیکن ان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان جیسے علما فضلا شامل ہیں، جن کے منہ سے مسلم تہذیب کی خوشبو تو کیا آئے گی، ایسا فضلہ جھڑتا اور بہتا نظر آتا ہے کہ بسنت پر اگر جانی نقصان ہوتا ہے تو کیا ہوا، عیدالاضحی پر بھی لوگ زخمی ہو جاتے ہیں تو کیا عیدالاضحی پر بھی پابندی لگادیں؟ یہ ایسی جاہلانہ منطق ہے، جیسے کوئی کہے کہ چولھے سے عورتیں جل جاتی ہیں، گاڑیوں، ٹرینوں ہوائی و بحری جہازوں کے حادثے ہوتے ہیں، لہٰذا انسان کچھ بھی نہ کرے، بنی گالہ میں جاکر عالم مدہوشی اختیار کرلے اور بس۔ پھر راوی ہر طرف چین ہی چین لکھے گا۔
Prev Post