خلاصہ تفسیر
وہ (مسلمان، منافقین سے) کہیں گے کہ (ہاں تم ہمارے ساتھ) تھے تو سہی، لیکن (ایسا ہونا کس کام کا، کیونکہ محض ظاہر میں ساتھ تھے اور باطنی حالت تمہاری یہ تھی کہ) تم نے اپنے کو گمراہی میں پھنسا رکھا تھا اور (وہ گمراہی یہ تھی کہ تم پیغمبر اور مسلمانوں سے عداوت رکھتے تھے اور ان پر حوادث واقع ہونے کے) تم منتظر (اور متمنی) رہا کرتے تھے اور (اسلام کے حق ہونے میں) تم شک رکھتے تھے اور تم کو تمہاری بے ہودہ تمناؤں نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا، یہاں تک کہ تم پر خدا کا حکم آ پہنچا (مراد بے ہودہ تمناؤں سے یہ ہے کہ اسلام مٹ جائے گا اور یہ کہ ہمارا مذہب حق ہے اور موجب نجات ہے اور مراد حکم خدا سے موت ہے، یعنی عمر بھر ان ہی کفریات پر مُصر رہے، توبہ بھی نہ کی) اور تم کو دھوکہ دینے والے (یعنی شیطان) نے خدا کے ساتھ دھوکے میں ڈال رکھا تھا (وہ یہ کہ خدا تعالیٰ ہم پر مواخذہ نہ کرے گا، حاصل مجموعہ کا یہ ہے کہ ان کفریات کی وجہ سے تمہاری معیت ظاہریہ نجات کے لئے کافی نہیں) غرض آج نہ تم سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ کافروں سے (یعنی اول تو معاوضہ دینے کے واسطے تمہارے پاس کوئی چیز ہے نہیں، لیکن بالفرض اگر ہوتی بھی تب بھی مقبول نہ ہوتی، کیونکہ دار الجزاء ہے دار العمل نہیں اور) تم سب کا ٹھکانا دوزخ ہے وہی تمہاری (ہمیشہ کے لئے ) رفیق ہے اور وہ (واقعی ) برا ٹھکانا ہے (یہ قول فالیوم الخ یا تو مومنین کا ہو یا حق تعالیٰ کا، اس تمام تر بیان سے ثابت ہوگیا کہ جس ایمان میں طاعات ضروریہ کی کمی ہو، وہ گو کالعدم نہیں، لیکن کامل بھی نہیں، اس لئے اگلی آیات میں اس کی تکمیل کے لئے بصورت عتاب کے مسلمانوں کو حکم فرماتے ہیں)(جاری ہے)
٭٭٭٭٭