کرسمس کی حقیقت اور شرکت کی شرعی حیثیت (حصہ اول)

0

کرسمس کی حقیقت:
ڈاکٹر شمس الحق حنیف
حق تعالیٰ کا فرمان ہے:
ترجمہ: کہو، اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور ان لوگوں کے تخیلات کی پیروی نہ کرو جو تم سے پہلے خود گمراہ ہوئے اور بہتوں کو گمراہ کیا اور ’’سواء السبیل‘‘ سے بھٹک گئے۔ (سورۃ المائدۃ: 77)
کرسمس (مسیح اور کیتھولک رسم) جو ہر سال 25 دسمبر کو منائی جاتی ہے، پوری عیسائی مذہبی لٹریچر اور اناجیل عہدنامہ جدید اور بائبل میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں، نہ 25 دسمبر حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش کا دن ہے۔
’’یہ عیسائیت میں باقی بدعات کی طرح ایک بدعت ہے، جو قدیم مشرک اقوام کی طرف سے رومن کلیسا میں در آیا ہے۔‘‘ (پروفیسر ہربرٹ ڈبلیو آرم سٹرانگ)
’’525 عیسوی میں سیتھیا کے راہب (Dionysius) جو ایک پادری ہونے کے ساتھ ایک ماہر کلینڈر نگار بھی تھا، اس نے اپنے اندازے کے مطابق حضرت مسیح کی تاریخ ولادت 25دسمبر مقرر کی۔‘‘ (Britannica, Christmas)
اس نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ 25 دسمبر واقعی عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخ پیدائش ہے، اس لئے عیسائی فرقہ آرتھوڈوکس جو گریگوری کلینڈر کو معتبر مانتا ہے، وہ کرسمس 7 جنوری کو مناتے ہیں۔ بعض خطے ایسے بھی ہیں جہاں 6 جنوری اور بعض جگہ 18 جنوری کو کرسمس منایا جاتا ہے۔ بائبل کے مشہور مفسر آدم کلارک (Adam Clarke) کہتے ہیں: ’’مسیح کی پیدائش ستمبر یا اکتوبرکے دنوں میں ہونے کی بالواسطہ تائید اس حقیقت سے بھی ملتی ہے کہ نومبر سے فروری تک چرواہے رات کے وقت کھیتوں میں اپنے ریوڑ کی نگہبانی نہیں کرتے بلکہ ان مہینوں میں رات کے وقت وہ انہیں حفاظتی باڑوں میں لے جاتے ہیں، جنہیں بھیڑوں کا حفاظتی باڑہ (Sheepfold) کہتے ہیں، اس لئے 25 دسمبر کا حضرت مسیح کی پیدائش سے کوئی مناسبت نہیں ہوسکتی۔‘‘
لوقا کی انجیل کی عبار ت ہے:
’’جب وہ وہاں ٹھہرے ہوئے تھے تو بچے کو جنم دینے کا وقت آپہنچا۔ بیٹا پیدا ہوا۔ یہ مریم کا پہلا بچہ تھا۔ اس نے اسے کپڑوں میں لپیٹ کر ایک چرنی میں لٹا دیا، کیونکہ انہیں سرائے میں رہنے کی جگہ نہیں ملی تھی۔‘‘ (لوقا: عیسیٰ کی پیدائش، 20:2)
دو ہزار سال پہلے تو چھوڑیں، آج بھی فلسطین کے علاقے میں 25 دسمبر کی رات کسی کیلئے میدان میں گزارنا دشوار ہے، تو ایک زچہ بچے کی پیدائش کی پہلی رات سرائے کے باہر اور بچے کو اپنے سینے سے چمٹا کے رکھنے کے بجائے کپڑے میں لپیٹ کر چارے کی ٹوکری میں کیسے رکھ سکتی تھی؟
لگتا ہے ولادتِ مسیح کے حوالے سے دسمبر میں یہ تہوار سورج کے پجاری مشرکوں اور مصر کے فرعونوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ (دیکھیں: بریٹانیکا اور کیتھولک انسائیکلوپیڈیا)
Natal Day کے عنوان سے کیتھولک انسائیکلوپیڈیا میں ہے:
’’مقدس صحائف میں یوم پیدائش (Birth Day) کے موقع پر کسی عظیم دعوت کا انعقاد کرنے یا اسے بحیثیت تہوار منانے کا کوئی ایک بھی حوالہ موجود نہیں، یہ تو نمرود، فرعون اور ان کی طرح کے گنہگار کفار ہیں، جو اس دنیا میں اپنی پیدائش کے دن کسی تہوار یا بڑی دعوت کا انعقاد کرتے ہیں۔‘‘
(نوٹ: اس مضمون کے درج بالا حصے میں زیادہ مواد محترم حسنین شاکر کے مضمون ’’کرسمس کی حقیقت‘‘ سے لیا گیا ہے، یہ مضمون انتہائی قیمتی نکات لئے ہوئے انٹر نیٹ پر موجود ہے۔) یہ تو ہوئی کرسمس کی حقیقت، اب
مسلمانوں کے لئے اس میں شرکت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس پر ذیل میں بات کی جاتی ہے۔
مسلمانوں کیلئے کرسمس میں شرکت کی شرعی حیثیت:
کسی بھی مسلمان کیلئے کرسمس ڈے منانا اور کرسمس کے حوالے سے کیک کاٹنا، ان کے کرسمس پروگراموں میں شرکت کرنا، ان کو کرسمس کی مبارکباد دینا اور ’’میری کرسمس‘‘ (Merry Christmas) کہنا وغیرہ قطعی طور پر حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، جس سے علی الاعلان توبہ کرنا واجب ہے، صرف خفیہ توبہ سے کام نہیں چلے گا۔
حدیث رسولؐ (ترجمہ) جس نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ اسی قوم سے شمار ہوگا۔ (سنن ابو داؤد) یہاں مشابہت سے مراد ان کی قومی/ مذہبی علامات میں مشابہت ہے، جیسے کوئی صلیب لٹکائے، کرسمس منائے، چھ کونوں والا ستارہ لگائے، کڑا کرپان، زنار یا چوٹی رکھے، بتوں کے سامنے پَرنام کرے تو وہ ان میں ہی شمار ہوگا۔ مسلمان تاجروں کیلئے بھی غیر مسلموں کی مذہبی مصنوعات کی تیاری اور فروخت حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، اس لئے کہ قرآن مجید میں صاف طور پر گناہ اور ظلم وزیادتی میں تعاون سے منع فرمایا گیا ہے۔ (المائدۃ: 2)
جو کرسمس ڈے مناتے اور اس کا کیک کاٹتے ہیں یا دیوالی مناتے ہیں اور بتوں پر دودھ انڈیلتے ہیں، وہ اسلام سے تو ہیں ہی جاہل، دنیا سے بھی جاہل ہیں، وہ اسلام کے خلاف مغرب کی تہذیبی جنگ میں کافروں کے مددگار بنتے ہوئے یہ جاہلانہ رسوم سرانجام دیتے ہیں۔ نیز وہ اپنے اس مشرکانہ عمل سے مغرب اور امریکہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم اسلام کے اس ایڈیشن کے داعی ہیں، جو رینڈ کارپوریشن کے معیار پر درست اور امریکہ ومغرب کے لئے قابلِ قبول ہے۔ نیز ان کا یہ مشرکانہ وناجائز عمل اسلامی تہذیب وثقافت اور اسلام کے بحیثیتِ نظامِ زندگی سے بے وفائی وبے زاری کا اعلان ہے اور چونکہ عیسائیت سمٹتے سمٹتے صرف اتوار کی عبادت اور کرسمس تک سکڑ گئی ہے، لہٰذا جو مسلمان کرسمس مناتے اور اس خوشی میں کیک کاٹتے ہوئے عیسائیوں کے ساتھ ان کی اس عید میں شرکت کرتے ہیں تو درحقیقت آدھی عیسائیت پر عملاً راضی ہو جاتے ہیں، اسی طرح وہ پوری عیسائیت میں مسلمانوں کو رنگنے کیلئے راستہ ہموار کرتے ہیں۔
یہ ان مسلمانوں کی جہالت کی انتہاء ہے کہ عیسائی دنیا تو عیسائیت کو خیرباد کہتے ہوئے اسلام کی طرف آرہی ہے، ان کے چرچ بکتے ہیں، مسلمان چرچوں کو خرید کر مسجدیں بنا رہے ہیں، ان کے چرچوں میں اتوار کے دن برائے نام ہی چند بوڑھے حاضری دیتے ہیں جبکہ مسجدوں میں گنجائش سے زیادہ مسلمان نماز پڑھنے آتے ہیں، کیوبا جو ایک عیسائی ملک ہے وہاں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا ہے۔
عیسائی پوپ اور پادریوں کے پاس ترکی میں برآمد شدہ انجیل کے مندرجات کا کوئی جواب نہیں، جس میں اسلام کی حقانیت اور محمدؐ کی نبوت کی واضح الفاظ میں تصریح ہے، عیسائی دنیا ابھی تک اس بات کا جواب نہیں دے سکی ہے کہ پوپ بینیڈکٹ اور اس کے 40 کارڈینیل ترکی میں موجود انجیل کا مطالعہ کرنے کے بعد کہاں غائب ہوگئے ہیں اور عیسائی انہیں سامنے لانے سے کیوں ڈرتے ہیں؟ (جبکہ کچھ لوگوں کا تو صاف کہنا ہے کہ انہوں نے بینیڈکٹ کو نماز پڑھتے دیکھا ہے، گزشتہ سال حج کے موقع پر ایک ویڈیو سامنے آئی تھی، جس میں ان کو شیطان کو کنکریاں مارتے دکھایا گیا تھا، تاہم اس کی تصدیق ابھی باقی ہے۔)
نیز عیسائی دنیا سے ہم یہ پوچھتے ہیںکہ سیکولر لابی تو کہتی ہے کہ امریکہ کا سیکولرازم مذہب کی آزادی پر یقین رکھتا ہے اور سیاست کو مذہب سے اور مذہب کو سیاست سے الگ کرنے پر یقین رکھتا ہے تو سوال یہ ہے کہ پھر مسلمانوں کو حصولِ اقتدار کی خاطر کرسمس منانے پر کیوں مجبور کیا جاتا ہے؟ امریکہ پاکستان میں اقتدار دلانے کیلئے کرسمس منانے کی شرط کیوں لگاتا ہے، جبکہ ان کا دعویٰ سیکولرازم کا ہے؟
اسی طرح ہم کرسمس اور دیگر مشرکانہ عیدیں منانے والوں سے پوچھتے ہیںکہ اگر سیکولرازم کے علمبرداروں نے تمہیں ان حرکتوں پر مجبور نہیں کیا تو کیا تم خود اسلام اور ایمان سے بدگمان ہوگئے ہو اور کلمہ پڑھنے پر تمہیں کوئی پچھتاوا ہے یا اسلام کے کسی حکم میں تمہیں کوئی شک ہے؟ اگر بات یہ ہے کہ تم اسلام اور ایمان سے جاہل ہو تو اس کے علمبردار کیسے بنے بیٹھے ہو اور اگر اسلام وایمان میں تمہیں شک ہے تو آخر کونسی چیز تمہارے عیسائیت یا ہندومت اپنانے میں رکاوٹ ہے سوائے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے؟
کچھ لوگ کرسمس اور دیوالی منانے کو رواداری قرار دیتے ہوئے اس کو سندِ جواز دینے اور خود کو وسیع القلب اور ہر مذہب اور عقیدے کے لوگوں کیلئے قابلِ قبول بنانے کی ناکام وناپاک کوشش کرتے ہیں، ایسے لوگوں سے ہم بجا طور پر پوچھتے ہیں کہ اس طرح کی رواداری تم نے قرآن کی کس آیت اور رسول اکرمؐ کی سیرت وسنت اور حدیث کی کس بات سے سیکھی ہے؟ اور کیا تم سال میں صرف ایک دفعہ کرسمس کا کیک کاٹ کر رواداری کا ثبوت دو گے یا آنے والے دنوں میں ہر وقت صلیب گلے میں لٹکا کر پوری زندگی میں رودار رہو گے؟ سال میں ایک دن کی رواداری کو کوئی جاہل ہی رواداری شمار کرے گا۔ ساتھ ہی یہ سوال بھی بجا طور پر پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس قسم کی رواداری صرف مسلمانوں (یا مسلمان کہلانے والوں) پر ہی لازم ہے یا عیسائیوں اور ہندؤوں سے بھی اس کی توقع کی جاسکتی ہے؟
کیا تم کسی ایسے ہندو کی یا عیسائی کی مثال پیش کرسکو گے جس نے مسلمانوں کے ساتھ کبھی بقرِ عید کے دن گائے یا بکرے کی قربانی کی ہو؟ اگر جواب نفی میں ہے تو کیا اپنے اس عمل کو رواداری کا نام دے کر تمہیں ذرا بھی شرم نہیں آتی کہ ’’ذہنی غلامی‘‘ اور ایمان و ضمیر کے سودے کو رواداری کا نام دیتے ہو؟ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More