جج ہو تو ایسا رحمدل! کہ صوابدید پر ہی سہی، مجرم کو اس کی فرمائش کردہ جیل بھیجنے کی استدعا بھی منظور کرلی۔ دو میں سے ایک مقدمے میں سزا سنائی، دوسرے میں باعزت بری بھی کردیا۔ حکومت ہو تو ایسی کہ محکمہ داخلہ پنجاب مجرم کی عزت و تکریم میں اس کے جیل پہنچنے سے پہلے ہی اس کے لئے خصوصی مراعات کا پیکیج مرتب کر کے اس پر فی الفور عمل درآمد کے احکامات یقینی بنائے۔ قومی چور اور ڈکیتوں کو پکڑنے والے ریاستی ادارے نے بھی حتی المقدور مجرم کے پروٹوکول میں ذرہ برابر کمی کو اپنی توہین جانا۔ مجرم کو ایک شب اس کی مرضی کے خلاف اڈیالہ جیل میں رکھنے کی گستاخی کے بعد اگلی صبح کا سورج چڑھتے ہی اسے خصوصی طیارے میں چڑھا دیا گیا، جہاں سے قومی دولت پر شب خون مارنے والے نواز شریف اب کوٹ لکھپت جیل کے رجسٹرڈ، وہ ارب پتی مکین ہیں، جنہیں قید میں بھی وی وی آئی پی حیثیت حاصل ہے۔ انہیں ٹی وی دیکھنے، اخبار پڑھنے، میز کرسیوں سمیت ہر وہ سہولت دی گئی ہے، جو نئے پاکستان کے کروڑوں آزاد شہریوں کو بھی حاصل نہیں۔ صرف یہی نہیں، نواز شریف کو تو گھر سے برتن بھانڈے وغیرہ منگوانے کی سہولت بھی دے دی گئی ہے۔ اب یہ برتن گھر سے آئیں گے تو خالی تو آنے سے رہے، یقیناً یہ برتن بھانڈے لذیذ و من پسند گھریلو ڈشز سے لبریز ہی ہوں گے، تاکہ جیل میں بھی میاں صاحب کو گھریلو آسائشات میسر رہیں اور ان کی خوش خوراکی ’’خشک خوراکی‘‘ میںنہ بدل سکے۔ میاں شہباز شریف بھی اسی جیل میں نواز شریف کے پڑوسی ہیں۔ اغلب ہے کہ انہیں بھی ایسی ہی سہولیات پہلے سے میسر ہوں گی۔ تو جناب یہ ہے وہ نیا پاکستان جس کا ڈھنڈورا ہمارے وزیر اعظم اور ان کے ہمنوا اپنے ہر بیان اور خطاب میں قوالوں کی طرح باربار دہراتے نہیں تھکتے۔
سنگین قومی مقدمات میں سزا پانے والوں کے ٹھاٹھ باٹ دیکھ کر کون چاہے گا کہ وہ ایسی حرکات سے باز رہے، جن کا ارتکاب میاں برادران نے کیا یا زرداری خاندان کر رہا ہے؟ ہمارے حکمراں اور احتسا ب کرنے والے ادارے خدا جانے کب اس وی آئی پی کلچر کے خاتمے کا بندوبست کریں گے، جس کے زبانی کلامی دعوؤں کی مالا وہ اٹھتے بیٹھتے جپتے ہیں۔ حافظ جی کی آنکھیں اس وقت خیرہ ہوئے بنا نہ رہ سکیں، جب منگل کے روز عدالت سے سزا یافتہ میاں نواز شریف کو لاہور پہنچنے پر ایئر پورٹ سے کوٹ لکھپت جیل منتقل کیا جارہا تھا۔ ایک مجرم کے لئے فول پروف سیکورٹی انتظامات یوں کئے گئے جیسے بادشاہ وقت کی سواری گزر رہی ہو۔ انہیں کوٹ لکھپت جیل پہنچانے کے لئے ایک دو نہیں، تین روٹ لگائے گئے۔ دو راستوں کو مجرم کے دیدار سے یوں محروم رکھا گیا، جیسے پاکستان کے غریب عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں اور یہ محرومیت بھی میاں برادران اور زرداری خاندان جیسوں کی ہی مرہون منت ہے، جنہوں نے انہی عوام کو ان کے جائز حق سے محروم رکھا، جنہوں نے اپنے کاندھوں پر بٹھا کر انہیں اقتدار کی کرسی تک پہنچایا۔ میاں نواز شریف کو ایئر پورٹ سے کوٹ لکھپت جیل تک جس شاہانہ انداز میں لے جایا گیا، اس نے پاکستان میں دوغلے قوانین اور اس کے پروردہ طبقے کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا۔ کہا جا رہا ہے کہ میاں صاحب کے ساتھ ایسا سیکورٹی خدشات کے سبب کیا گیا۔ یہ بات حافظ جی کو ٹیڑھی کھیر کی طرح ابھی تک ہضم نہیں ہوئی، کیوں کہ لاہور تو شریف خاندان کے لئے ایک ایسا محفوظ و مامون شہر ہے، جہاں کے باسی بقول شریف خاندان ان پر دل و جان نچھاور کرنے کو تیار رہتے ہیں، تو پھر اس قدر سخت سیکورٹی حصار کا کیا جواز؟ کوئی کچھ بھی کہے، حافظ جی تو اسے مجرموں کی تکریم کے علاوہ کچھ اور نہیں کہہ سکتے، خواہ وہ شریفوں کے لئے ہو یا بدمعاشوں کے لئے۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی ایک سزا یافتہ مجرم کی خواہشات کے احترام میں آئین و قانون کو رسوا کیا جائے۔
نئے پاکستان کے دعویداروں کی حکومت اور عدل و انصاف کا ڈھندورا پیٹنے والوں کے چھتر سائے یہ دیکھ کر دل ملول ہوئے بنا نہیں رہتا کہ عوامی خزانے پر شب خون مارنے والے تو اب بھی اپنے میگا کرپشن مقدمات کی پیروی کے لئے درجنوں لگژری گاڑیوں میں وکٹری کا نشان بنا کر عدالتوں کی دہلیز تک یوں پہنچتے ہیں کہ ان کی گاڑیوں کی چھتیں اور ونڈ اسکرین پھولوں کی پتیوں سے ڈھکے ہوتے ہیں۔ لوگوں کو لائنیں لگوا کر ان کی دست بوسی کا اہتمام کیا جاتا ہے، کہیں سے نہیں لگتا کہ وہ مقدمات کا سامنا کرنے آرہے ہیں، بلکہ ایسا لگتا ہے جیسے وہ عدالت کو فتح کرنے آئے ہوں۔ طرفہ یہ کہ منصفین بھی اس ناپسندیدہ رویے پر ان سے باز پرس نہیں کرتے، بلکہ کئی صورتوں میں تو یہ افسوسناک معاملات بھی سامنے آچکے ہیں کہ منصفین خود ملزمان سے پوچھتے ہیں کہ ان کے خلاف تحقیقات کے لئے کون سا فورم بنایا جائے؟ گویا ملزمان و مجرمان کو اپنا فرمائشی پروگرام چلانے کی ہر فورم پر اجازت ہے۔ حافظ جی اپنے قابل احترام ججز سے نہایت مؤدبانہ عرض کرتے ہیں کہ وہ عام سے ملزمان پر بھی ایسی شفقت و محبت کے پھول کیوں نہیں برساتے؟ غریبوں کے لاتعداد کیس برسوں لٹکے رہتے ہیں، یہاں تک کہ انصاف کی آرزو میں وہ اللہ کی عدالت جا پہنچتے ہیں، مگر اہل سیاست کے کیس دوسرے تیسرے روز ہی سماعت کے لئے مقرر ہو جاتے ہیں، بلکہ ان کے فیصلے بھی کردیئے جاتے ہیں۔ یہ محض الزام نہیں، بلکہ آنکھوں دیکھی وہ حقیقت ہے، جس سے انکار ممکن نہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارا سارا نظام با اثروں کے زیر اثر ہے اورآئین و قانون اب بھی ان کے لئے کسی کھلونے سے کم نہیں۔
پاکستان میں ریاست مدینہ کے خال وخد کی بات کرنے والی تحریک انصاف کی حکومت اور وزیر اعظم بالخصوص جس لائن پہ چل نکلے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے گمان یقین میں بدل چکا کہ عوام چند ہی ماہ میں ان سے متنفر ہو جائیں گے۔ ضمنی الیکشن اور حالیہ بلدیاتی ضمنی انتخابات ہی حافظ جی کے مؤقف کی تائید کے لئے کافی ہیں۔ ناانصافی سے لتھڑے معاشرے کبھی نہیں پنپتے۔ عوام کو سہولیات بہم پہنچانے کے نعرے لگا کر اقتدار کا سنگھاسن سجا لینے کو کامیابی سمجھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ تحریک انصاف والوں کو پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے زوال کو نہیں بھولنا چاہئے۔ ایک نظریاتی اسلامی ملک ہونے کے ناتے ہمارے حکمرانوں اور صاحب اختیار لوگوں کو کیا ایسے ہی رویوں کا اظہار کرنا چاہئے، جیسے رویے سامنے آرہے ہیں؟ کیا ملزمان و مجرمان اب بھی قابل تکریم ہی رہیں گے؟ قوم کو معاشی انقلاب کاسنہرا خواب دکھا کر اقتدار حاصل کرنے والی تحریک انصاف چند ماہ کے دوران ہی اپنے تمام وعدے اور بلند بانگ دعوے فراموش کر چکی۔ ابھی تو اس کو اقتدار سنبھالے صرف پانچواں مہینہ ہی ہے، مگر اس کی معاشی، اقتصادی اور سماجی پالیسیاں تواتر سے فلاپ شو کی صورت سامنے آرہی ہیں۔ مہنگائی کا عفریت عوام کو نگل رہا ہے۔ لوگ بے روزگاری کے گڑھے میں گر رہے ہیں اور حکومتی وزراء سینما گھروں میں اضافے، بسنت تہوار منانے اور شراب نوشی کے حق میں اونگی بونگی دلیلیں پیش کر رہے ہیں۔
حضور والا کیا یہی ہے وہ نیا پاکستان جس کا ڈھول آپ نے پیٹا تھا؟ مدینے کی ریاست کا جو بھاشن آپ عوام کو دے رہے ہیں، اس میں ایسا ہرگز نہیں ہوتا کہ اپنے وزراء کے کرپشن کیس دبا دیئے جائیں اور مخالفین کو ہدف بنا لیا جائے۔ ریاستی عمارت مضبوط و پائیدار اسی وقت قرار دی جاسکتی ہے، جب تمام معاملات نیک نیتی سے برابری کی سطح پر چلائے جائیں۔ اب اسے کیا کہا جائے کہ آپ ایک ملزم کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمیں بنانے پر رضامند ہوگئے، حالانکہ آپ نے اس حوالے سے بڑے بلند بانگ دعوے کئے تھے۔ صرف قومی اسمبلی میں ہی نہیں، بلکہ اب تو آپ نیب زدہ ایک اور شریف پوت کو پنچاب اسمبلی میں بھی پبلک اکاؤنس کا سربراہ بنانے پر تیار ہیں۔ وہی پوت جو ان دنوں نیب کو شدت سے مطلوب ہے۔
گستاخی معاف! موجودہ صورت حال اتنی گمبھیر ہو چکی ہے کہ اب تو چور بھی شور مچا رہے ہیں کہ احتساب یک طرفہ ہو رہا ہے، یعنی صرف اپنی چوری سے وہ انکار نہیں کر رہے، بلکہ اپنے ان بھائی بندوں کو بھی دائرئہ احتساب میں لانے کی دہائیاں دے رہے ہیں، جن کو آپ نے حکومتی پروں میں چھپا رکھا ہے۔ اگر آپ اپنے لوگوں کو احتساب سے مبرا سمجھیں گے تو لوگ مزید متنفر ہوں گے اور چوروں کو تقویت ملے گی۔ اب ہر طرف یہی ایک سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا لوٹ مار کرنے والے صرف اپوزیشن جماعتوں میں ہیں؟ کیا پی ٹی آئی میں سارے فرشتے در آئے ہیں؟ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ یہ سوال عوام کے لبوں پر بھی ہے تو کیا نئے پاکستان اور مدینے جیسی ریاست کے دعویداروں کے سر شرم سے جھک نہیں جانے چاہئیں؟؟؟ (وما توفیقی الاباللہ) ٭
Prev Post
Next Post