’’توہین عدالت اور توہین رسالت‘‘

0

سیلانی کا تو دماغ بھک سے اڑ گیا، دل اس طور پر سے دھڑکا کہ جیسے پسلیاں توڑ کر باہر آگرے گا۔ سیلانی نے اس غلیظ کثیف جگہ پر لمحہ رکنا بھی گوارا نہ کیا اور وہ جو کہتے ہیں نا کہ الٹے قدموں پلٹا تو وہ الٹے قدموں پلٹ آیا۔ اسے افسوس ہونے لگا کہ وہ اس غلیظ عورت کی آئی ڈی پر کیوں آیا۔ اس کی نظر اس کی ناپاک جسارتوں پر کیوں پڑی۔ سیلانی کا دل تو پہلے ہی ایک مقبوضہ کشمیر کی طالبہ آصفہ بختاور کی خون میں لت پت ویڈیو دیکھ کر بوجھل ہو گیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر کے علاقے سو پور میں بھارتی سیکورٹی فورسز نے فائرنگ کرکے آصفہ بختاور نامی طالبہ کا سفید یونی فارم اس کے سرخ لہو سے رنگ دیا تھا۔ جی پہلے ہی بوجھل ہو گیا اور اب یہ…؟ سیلانی صبح سویرے فیس بک پر سوشل میڈیا کا حال لینے گیا تو اپنے حلقہ احباب میں شامل ایک نوجوان کا شدمد کے ساتھ کسی خاتون کو سبق سکھانے کے دعوے نے متجسس کر دیا۔ سیلانی معاملہ جاننے کے لئے اس عورت کی آئی ڈی پر گیا تو لرز کر رہ گیا۔ وہ دریدہ دہن تو بدترین گستاخ رسول نکلی، جو رسول اقدسؐ پر بھونک رہی تھی۔ چاند پر تھوکنے سے چاند تو میلا نہیں ہوتا، لیکن اس قسم کی ناپاک جسارتوں سے دل کا اداس ہونا فطری امر ہے۔ غلاظت میں لتھڑی وہ بدزبان اسی مٹی کی تھی۔ نام سے لگتا تھا کہ اسے کسی مسلمان ماں نے جنم دیا ہے۔ سیلانی لیپ ٹاپ کھولے بیٹھا کا بیٹھا رہا، اسے سمجھ نہیں آیا کہ کیا کرے، کس سے بات کرے، کس کو شکایت کرے۔ اسے خیال آیا کہ ایف آئی اے کا سائبر کرائمز یونٹ اس حوالے سے کام کرتا ہے۔ سیلانی نے انٹر نیٹ سے یونٹ کا نمبر لیا اور ڈائل کرنے لگا۔ دوسری طرف گھنٹی بجی اور بجتی ہی چلی گئی۔ کسی نے ریسیور اٹھا کر کال نہیں سنی۔ اب سیلانی نے سوچا کہ فیس بک انتظامیہ کو اس کی رپورٹ کرنی چاہئے۔ مگر اسے طریقہ نہیں معلوم تھا۔ فیس بک پر ہی ایک بلوچ نوجوان سے رہنمائی ملی۔ پی ٹی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کا ای میل ایڈریس ملا۔ سیلانی نے اسے ای میل کی اور وہ ای میل ایڈریس اپنی وال پر بھی مشتہر کردیا۔ یہ سب کرنے کے بعد بھی سیلانی کو لگا کہ یہ ناکافی ہے، اسے پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی اور ایف آئی اے والوں پر غصہ آرہا تھا۔ اتنا حساس ادارہ اور اتنے ڈھیلے سست الوجود لوگ جو فون اٹھانے کی بھی زحمت نہ کریں۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے بشیر میمن سے کسی زمانے میں یاد اللہ تھی۔ سیلانی جانتا ہے کہ میمن صاحب دبنگ افسر ہیں، جہاں جاتے ہیں محکمے کے سارے پرزے کام کرنے لگ جاتے ہیں، لیکن یہاں سائبرکرائمز سیل بالکل ہی جام ملا۔ دفعتاً اسے نوجوان بلاگر بلال خان کا خیال آیا۔ اس نے بلال سے رابطہ کیا۔ اسے فون کیا اور پوچھا کہاں ہو؟ کہنے لگا اسلامی یونیورسٹی۔ سیلانی نے کہا بس میں آدھے گھنٹے میں پہنچ رہا ہوں اور پھر اسلامی یونیورسٹی جا پہنچا۔ وہ یہاں بلال خان مشاورت کے لئے آیا تھا، لیکن پتلے دبلے دھان پان سے بلال کے پاس حکومتی اداروں کی شرمناک لاپروائی کی خاصی ضخیم فائل موجود تھی۔ وہ بھی سال دو سال پہلے ایسے ہی تکلیف دہ تجربے سے گزر چکا تھا۔ وہ سیلانی سے مخاطب تھا اور سیلانی اس کی جانب ہمہ تن گوش تھا:
’’یہ پندرہ جون 2016ء کی بات ہے، فیس بک پر ہمارے دوست عرفان نے ایک پوسٹ لکھی، جس پر حسب معمول دوستوں نے آکر comments دینا شروع کر دیئے، وہیں کراچی کے ایک نوجوان اور فیصل آباد کی ایک خاتون میں کسی بات پر لگ گئی، دونوں میں نوک جھونک شروع ہوئی، دونوں ہی ذاتیات پر اتر آئے اور وہیں ایک دوسرے پر رکیک حملے شروع کر دیئے، یہ نوک جھونک جاری رہی اور بات بھی بڑھتی گئی، دونوں ایک دوسرے کو زچ کرنے میں لگے رہے اور پھر جیسا کہ عموماً ہمارے یہاں ہوتا ہے لڑائی کسی کی بھی ہو گالم گلوچ میں بڑوں کو رگڑنا شروع کر دیا جاتا ہے، اس بدبخت نے بھی ایسا ہی کیا اور اس کے بڑوں کو کیا ساری حدیں پھلانگ کر نبی اکرمؐ کی شان میں ہرزہ سرائی کردی‘‘۔
’’ایک منٹ ایک منٹ! مجھے یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ بات دو بندوں کے درمیان کی تھی، کوئی مذہبی معاملہ بھی نہیں تھا، پھر بات اس طرف کیسے آگئی؟‘‘ سیلانی نے کرسی پر پہلو بدلتے ہوئے اعتراض کیا، معاملہ نہایت حساس نوعیت کا تھا، اس کا محتاط ہونا ضروری تھا۔
’’سیلانی بھائی! وہ عورت فیصل آباد کی ایک ملحدہ ہے، اس کے باپ نے بھی اس سے قطع تعلق کر رکھا ہے، وہ فیس بک پر عموماً جنسی آزادی اور مردانہ معاشرے کے خلاف لکھتی رہتی تھی، وہ تو تھی ہی ایسی بکواسی، اس کے سامنے والا کراچی کا باریش مولوی نوجوان تھا ہو سکتا ہے…‘‘ بلال کی بات بیچ میں ہی رہ گئی، سامنے بیٹھے دوست نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا:
’’مولوی نہیں ہے وہ، میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں، میرا اچھا دوست رہا ہے، سبزی منڈی میں کسی کے پاس منشی تھا، چھوٹا موٹا کام کرتا تھا، میٹرک پاس بھی نہیں ہے۔‘‘ بلال خان کے سامنے بیٹھے ہوئے نوجوان نے مداخلت کی۔ یہ بات سیلانی کے لئے بھی نئی تھی۔ یہاں جس نوجوان کا ذکر ہو رہا ہے، وہ حلئے سے کسی مدرسے کا فارغ التحصیل ہی معلوم ہوتا ہے۔ سیلانی تو یہی سمجھتا تھا، وہ آج کل منظور پشتین کی فکر سے متاثر ہے اور اس کی زیادہ تر پوسٹیں اسی کی سوچ کے گرد گردش کرتی رہتی ہیں۔
’’شاید وہ اسے مولوی سمجھی ہو اور یہ سمجھ کر بکواس کر دی ہو کہ مولوی عام مسلمانوں کی نسبت کچھ زیادہ مذہبی اور جذباتی ہوتے ہیں، خیر آگے کیا ہوا؟‘‘ سیلانی نے بلال کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے پوچھا۔
’’سر! اس نے نہایت ہی گھٹیا بات لکھی تھی، اس نے براہ راست نبی اکرمؐ کی ذات پر طنز کیا تھا، اچھا جب فیس بک پر کسی پوسٹ پر بحث ہوتی ہے تو اسے پرائیوسی کے مطابق یا تو سب پڑھ سکتے ہیں یا صرف اس کے دوست، یہ بات وہاں موجود اور لوگوں نے بھی پڑھ لی، مجھے اس بات کا علم ایک دوست سے ہوا، میں نے اس کے اسکرین شارٹس بنائے، موبائل سے ویڈیو کلپ بنایا اور ایک پروفیسر صاحب اور دو تین دوستوں کے ساتھ اسلام آباد کے آبپارہ تھانے پہنچ گیا، ایس ایچ او آبپارہ قاسم صاحب سے جا کر ملے، اسے معاملہ بتایا اور مقدمہ درج کئے جانے کی درخواست سامنے رکھ دی۔ سر! اس نے صاف انکار کردیا۔ میں نے اسے اسکرین شارٹس دکھائے، جس میں اس بدبخت عورت کی وہ گستاخی محفوظ تھی اور کہا بھی کہ آپ خود بھی مسلمان ہیں، یہ سب آپ کے سامنے ہے، آپ بتائیں کہ کیا یہ گستاخی نہیں ہے؟ اس تھانیدار نے ہاتھ جوڑ لئے اور کہا میری مجبوری سمجھیں، یہ بہت ہائی لیول کا معاملہ ہوتا ہے، میں مقدمہ درج نہیں کر سکتا، اس کے بعد ہم عدالت گئے، راولپنڈی سیشن کورٹ میں مقدمے کے اندراج کے لئے درخواست دی، جسے وصول کر لیا گیا اور بس۔‘‘
’’عدالتی حکم پر بھی مقدمہ درج نہیں ہوا؟‘‘
’’عدالت حکم دیتی تو مقدمہ درج ہوتا، معاملہ درخواست وصولی تک ہی رہا۔‘‘
بلال سے ملاقات میں اندازہ ہوا کہ پاکستان میں مقدس ہستیوں کی حرمت کا قانون تو بن گیا، لیکن اس قانون کے نفاذ کے لئے قانون کو جگانا کتنا مشکل ہے۔ بلال خان سوشل میڈیا پر کافی متحرک ہے اور اس حوالے سے کافی معلومات بھی رکھتا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ اس ملعونہ کے گھر تک جا پہنچا تھا اور اس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس کے گھر کا پتہ تک دے دیا تھا، لیکن قانون حرکت میں نہیں آیا، آتا بھی کیسے؟ مقدمہ درج ہوتا تو بات آگے بڑھتی۔ بلال خان اور اس کے ساتھی فیس بک پر ہی شور مچا سکے، البتہ اسلام آباد کا سیکولر گروپ فیس بک سے باہر متحرک ہو گیا، اسے گائیڈ کیا جاتا رہا کہ وہ کس طرح کلمہ پڑھ کر بیان دے اور کیا کیا تاویلیں پیش کرے، پھر عاصمہ جہانگیر بھی اس کی مدد کو آگئی، وہ عورت اس کے محفوظ ہاتھوں میں چلی گئی اور اس وقت تک رہی، جب تک معاملہ رفع دفع نہ ہوگیا۔ اب وہ فیس بک پر اپنے اصل نام سے تو نہیں ہے، ہو سکتا ہے کسی فرضی نام سے آئی ڈی بنا رکھی ہو، البتہ اس نے ٹوئیٹر پر اپنا اکائونٹ بنا رکھا ہے۔ سوشل میڈیا کے ان نوجوانوں کی اس محفل میں سیلانی کو پتہ چلا کہ سیکولر اور
لادین کتنے جڑ کر باقاعدہ گروپس کی صورت میں رہتے ہیں۔ ان کی مجلسیں ہوتی ہیں، فکری نشستیں ہوتی ہیں، جن میں وہ سب کچھ ہوتا ہے جو ایک ’’روشن خیال‘‘ اور ترقی پسند کو درکار ہوتا ہے۔
بلال خان سے ملنے کے بعد سیلانی کو اندازہ ہوا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رسول اقدسؐ کی عزت و حرمت پر بھونکنے والوں کے لئے آواز اٹھانا کس قدر مشکل کام ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے تعاون کرتے ہیں نہ عدالتیں معاملے کی حساسیت کا ادراک کرتی ہیں۔ سیلانی نے اس حوالے سے آسیہ مسیح کیس کے مقدمے میں مدعی کے وکیل غلام مصطفی ایڈووکیٹ سے لاہور رابطہ کیا۔ ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ معاملہ اور وہ پریشان کن ہے۔ وہ لاہور کے جی دار وکلاء میں سے ہیں اور بیس اکیس برس سے وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ شاتمین اور گستاخ بدبختوں کے لئے ڈرائونا خواب بن چکے ہیں۔ چند دن پہلے ہی دو بھائیوں کو سیشن کورٹ سے گستاخی کا مرتکب قرار دلوا چکے ہیں۔ انہیں اس قسم کے مقدمات کی پیری کا خاصا تجربہ ہے۔ سیلانی نے کہیں سے ان کا نمبر کھوج کر رابطہ کیا تو وہ وہ کچھ پتہ چلا کہ جو سیلانی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس تعاون کرتی ہے نہ عدالتیں معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ان مقدمات کو ترجیحاً سنتی ہیں، میرے پاس اس قسم کی نوعیت کے پچاس مقدمات ہیں، جن کی بیس بیس برسوں سے پیشیاں پڑ رہی ہیں، مگر فیصلہ ہو کر نہیں دے رہا، نظام ہی ایسا ہے کہ سزا پر عملدرآمد نہیں ہو پاتا، سیشن کورٹ سزا سناتی ہے تو ملزم ہائی کورٹ چلا جاتا ہے، وہاں پیشیاں پرتی رہتی ہیں، سماعتیں ہوتی رہتی ہیں، وہاں سے سزا ہو جاتی ہے تو معاملہ سپریم کورٹ میں آجاتا ہے، پھر یہاں وہی پیشیوں کا سلسلہ اور یہاں دیکھا یہ گیا ہے کہ عموماً ملزمان کی سزا کالعدم ہو جاتی ہے۔
غلام مصطفی ایڈووکیٹ صاحب نے سیلانی کو بتایا تھا کہ ہماری عدالتوں سے سزائیں دیئے جانے کی شرح ویسے ہی شرمناک حد تک کم ہے، لیکن 295C کے مقدمات میں تو یہ صورت حال اور بھی تشویش ناک ہے، ملکی تاریخ میں سپریم کورٹ نے295C کے دو فیصلے سنائے اور دونوں میں سزائیں کالعدم قرار دی گئیں۔ پاکستان میںآج تک کسی گستاخ کی سزا پر عمل نہیں ہوا۔ غلام مصطفی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ پولیس اس نوع کے مقدمات میں زیادہ دلچسپی بھی نہیں لیتی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انہیں مدعیان کی طرف سے کچھ مال شال نہیں ملتا اور دوسری طرف والے ٹھیک ٹھاک مال لے کر آتے ہیں، ان کے لئے فنڈنگ آتی ہے، یورپی یونین چیخنے لگتا ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں رولا ڈال دیتی ہیں اور پھر اوپر سے ان کی پہنچ وہاں وہاں ہوتی ہے جو میں اور آپ سوچ ہی سکتے ہیں۔
غلام مصطفی ایڈووکیٹ صاحب نے سچ کہا تھا۔ ان کے مؤقف کے حق میں ڈھائی فٹ کے فاصلے پر بلال خان کی صورت میں ثبوت بیٹھا ہوا تھا۔ سچی بات ہے اس ملک میں توہین عدالت پر عدالتیں برہم ہو جاتی ہیں، وزراء کو ہاتھ بندھوا کر طلب کر لیا جاتا ہے، بھری عدالت میں سرزنشیں ہوتی ہیں، لیکن اسی ملک میں انہی عدالتوں کے ہوتے ہوئے شان رسالت میں گستاخیاں ہوتی ہیں، مگر کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔ عدالت عظمیٰ حکومت سے کیوں نہیں کہتی کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کیوں بے نتھے سانڈ کی طرح کسی کے قابو میں نہیں؟ حکومت اس حوالے سے فیس بک انتظامیہ سے بات کیوں نہیں کرتی؟ اگر وہ شان رسالت پر بھونکنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی تو حکومت کارروائی کرے۔ سوشل میڈیا پر فلٹر لگا دے۔ نہیں لگا سکتی تو وہ سوراخ ہی بند کر دے، جہاں سے یہ گٹر کا پانی رس رہا ہے۔ چین نے معاشی طور پر امریکہ کو پچھاڑ دیا ہے۔ وہ دنیاوی ترقی و خوشحالی کی مثال بن کر سامنے آیا ہے۔ وہاں انٹر نیٹ اس طرح گندے نالے کی طرح نہیں بہہ رہا۔ وہاں کوئی فیس بک کھول کر بتائے، ان کی اپنی فیس بک ہے، ان کے اپنے سرچ انجن ہیں، ہمیں اب سوچنا ہوگا یہاں ہماری فکری، نظریاتی، اخلاقی اور معاشرتی قدروں پر ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، ہمیں اپنا بچاؤ کرنے کے لئے اب اٹھنا ہوگا، ورنہ اٹھنا چاہیں گے اور اٹھ نہ سکیں گے۔ ہمارے نوجوان اس سیلاب میں بہہ جائیں گے۔ سیلانی یہ سوچتے ہوئے اسلامی یونیورسٹی کی کینٹین میں نوجوان طالب عملوں کو پر تفکر انداز میں دیکھنے لگا اور دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More