سب کہانیاں ہیں بابا

0

صوبہ سندھ میں امن و امان کی صورت حال اکثر خراب رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے زمانۂ عروج میں کراچی دہشت گردی کا سب سے بڑا مرکز تھا، جہاں روزانہ درجنوں کے حساب سے لاشیں اٹھتی تھیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران کراچی میں حالات پر قابو پانے کے لئے رینجرز کو طلب کیا جاتا رہا۔ پھر جب پورے ملک کی طرح کراچی میں بھی پولیس اور رینجرز کا مشترکہ آپریشن شروع ہوا اور ایم کیو ایم کے قائد کی پاکستان دشمن اور اشتعال انگیز تقریر کے بعد اس تنظیم کے کئی ٹکڑے ہوگئے تو کچھ عرصے کے لئے کراچی میں امن و امان بحال ہوتا نظر آیا۔ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کا اقتدار گھڑی دو گھڑی کی بات نہیں۔ نصف صدی سے زائد کا حصہ ہے۔ آج سے پورے ساٹھ سال پہلے جنرل ایوب خان نے پاکستان میں پہلا مارشل لاء لگایا تو پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کنونشن مسلم لیگ کے ایک اہم رہنما اور ان کی کابینہ میں شامل تھے۔ اس وقت سے سندھ کے معاملات اور حکومتوں میں پیپلز پارٹی کا عمل دخل ہے۔ اس پارٹی نے بالخصوص آصف علی زرداری کی بے نظیر بھٹو سے شادی کے بعد کرپشن کے جو ریکارڈ قائم کئے، ان کے خلاف تحقیقات کا اگرچہ آغاز ہوچکا ہے، لیکن تمام تر ثبوت و شواہد کی موجودگی اور ان کے پوری دنیا میں چرچوں کے باوجود آصف علی زرداری، ان کے قریبی رشتے دار اور ساتھی اب تک آزاد ہیں اور عوامی جلسے کرکے اپنی پاک دامنی، معصومیت اور مظلومیت کے ڈھول پٹ رہے ہیں۔ وفاق اور تین صوبوں سے بے دخل ہونے کے باوجود سندھ میں پیپلز پارٹی کی برسوں سے قائم حکومت ہنوز برقرار ہے، جو ماضی میں صوبے کے اندر امن و امان کے قیام میں ہمیشہ ناکام رہی، کیونکہ اس کی تمام تر توجہ قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانی پر رہی۔ اب اسی پارٹی کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران کراچی میں دہشت گردی کے چھ واقعات ہو چکے ہیں۔ یہ ایک سنگین اور خطرناک صورت حال ہے، جسے میں برداشت نہیں کر سکتا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں، بالخصوص پولیس کو چاہئے کہ وہ تحفظ و سلامتی کے سخت اقدامات کرے اور اپنی کارکردگی کو بہتر بنائے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد ایک بار پھر منظم ہو رہے ہیں اور ان پر ہماری گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ اگر وزیر اعلیٰ سندھ اس صورت حال پر قابو پانے میں ناکام ہیں اور اسے برداشت نہیں کر سکتے تو انہیں حکومت اور پارٹی سے دستبردار ہو جانا چاہئے، کیونکہ بقول شاعر ’’اے بادِ سموم این ہمہ آوردئہ تست‘‘۔ لیکن وہ ایسا ہرگز نہیں کریں گے، کیونکہ ان کا اپنا سیاسی اور حکومتی ریکارڈ قابل فخر تو کیا، قابل اطمینان بھی نہیں ہے۔
اپنی صوبائی وزارت خزانہ کے دور سے مراد علی شاہ کا نام پیپلز پارٹی کے لٹیروں کے سہولت کار کے طور پر سامنے آتا رہا ہے اور کچھ عجب نہیں کہ یا بدیر بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر تحقیقات اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑے۔ ان کی پارٹی نے پولیس کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرکے اس قدر تباہ کر دیا ہے کہ اس سے خیر کی کوئی امید نہیں۔ محکمہ پولیس یا دیگر ادارے اس وقت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جب حکمرانوں کے چال چلن درست ہوں۔ مراد علی شاہ کا خیال ہے کہ دہشت گرد ایک بار پھر منظم ہورہے ہیں، جبکہ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ وہ خفیہ اور اندرونی طور پر آج بھی پہلے کی طرح منظم ہیں۔ اب انہیں پیپلز پارٹی کی سرپرستی اور معاونت حاصل نہیں تو کیا، دیگر کئی عناصر اور بیرونی قوتوں کا سایہ ان کے سر پر ہے۔ فوج اور رینجرز کے خوف اور ان کے سرگرم ہونے کی وجہ سے وہ عارضی طور پر اپنی کمین گاہوں میں چلے جاتے ہیں۔ پھر موقع دیکھتے ہی باہر نکل کر وحشیانہ سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو اب پتا چلا ہے کہ کراچی میں اہدافی قتل کی حالیہ وارداتوں میں بیرونی ممالک، بالخصوص لندن میں بیٹھے ہوئے سازشی عناصر ملوث ہیں۔ چنانچہ اس ضمن میں برطانیہ سے رابطے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اول تو یہ بات ساری دنیا کو بتیس برسوں سے معلوم ہے کہ سندھ کے بڑے شہروں میں قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم کرنے والا ایم کیو ایم کا قائد الطاف حسین ہے۔ اس کے خلاف مشہور زمانہ لندن کی اسکاٹ لینڈ پولیس کے پاس تمام ثبوت موجود ہیں کہ اسی نے لندن میں عمران فاروق کو قتل کرایا، نیز بھارتی ایجنسیوں سمیت دنیا بھر سے رقوم اکٹھی کرکے اور پاکستان سے بھتوں کے پیسے وصول کرکے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں کیں۔ اس تناظر میں برطانیہ سے رابطہ کرنا فضول نظر آتا ہے، کیونکہ امریکا، برطانیہ، بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک پاکستان دشمن عناصر کو پناہ دے کر ان کی پشت پناہی تو کر سکتے ہیں، انہیں پاکستان کے حوالے کرنے یا ان کی رقوم وطن واپس لانے میں کبھی مخلصانہ تعاون نہیں کریں گے۔ خود اپنے قدم مضبوط نہ ہوں تو دوسروں کا سہارا کام نہیں کرتا۔ دہشت گردوں پر گرفت کمزور ہونے کا مراد علی شاہ کا بیان دو وجوہ کی بنا پر قابل قبول نہیں۔ ایک یہ کہ پیپلز پارٹی کے کسی دور حکومت میں اس کی دہشت گردوں پر گرفت کبھی مضبوط نہیں رہی۔ ایم کیو ایم کی پیٹھ سندھ میں ہمیشہ پیپلزپارٹی ہی نے تھپکی تو اس کو ملک دشمن سرگرمیاں بڑھانے کا موقع ملا۔ حکمراں پارٹی سندھ میں اپنی حکومت بچانے، اس کے رہنما اپنی نااہلی اور کرپشن کے خلاف مقدمات سے بچنے اور تحریک انصاف کی حکومت کے ناکام ہونے کی صورت میں ایک بار پھر ملک پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں تو انہیں عوام کی جان و املاک کی کیا فکر ہو سکتی ہے۔ ایم کیو ایم لندن کے قاتلوں اور دہشت گردوں کی روزانہ گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ جس کے بعد وہ نہ جانے کہاں پہنچا دیئے جاتے ہیں۔ پھر یہ کہ ان کی تعداد کم ہوتی ہے نہ ایم کیو ایم کے مقامی دھڑے اب تک اپنے بانی قائد کے فلسفہ تباہی و بربادی کو چھوڑ سکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ کو معلوم ہونا چاہئے کہ حکومتی خرابیوں پر قابو پانے کے لئے سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنی پڑتی ہے۔ محض بیانات، ہدایات اور احکام دینے کے بجائے نیک نیتی اور جرأت کے ساتھ میدان عمل میں نکلنا ضروری ہے۔ جہاں یہ کچھ نہیں، وہاں کوئی حقیقت بھی نہیں۔ سب کہانیاں ہیں بابا، جنہیں یہ قوم سات دہائیوں سے سنتی چلی آرہی ہے۔ ٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More