امام احمد بن حنبلؒ اور یحییٰ بن مَعینؒ بغداد سے یمن جانے کے لئے نکلتے ہیں۔ پروگرام تھا کہ ہم پہلے مکہ مکرمہ جائیں گے۔ کچھ عرصہ وہاں ٹھہرنے کے بعد یمن کے لئے روانہ ہو جائیں گے اور صنعاء پہنچ کر امام عبدالرزاق بن ہمامؒ الصنعانی سے احادیث سنیں گے۔ بغداد سے مکہ مکرمہ تک پیدل سفر قریباً ایک ماہ کا تھا۔
مکہ مکرمہ پہنچے تو حج کا موسم آ گیا۔ فیصلہ کیا کہ پہلے حج کریں گے پھر یمن جائیں گے۔ اسی دوران ایک دن یحییٰ بن معینؒ طواف کر رہے تھے کہ ان کی نظر امام عبدالرزاقؒ پر پڑی۔ وہ بھی حج کے لئے یمن سے آئے ہوئے تھے اور طواف کر رہے تھے۔ یحییٰ بن معینؒ نے ان کو سلام کیا۔ طواف سے فارغ ہوئے تو انہیں بتایا کہ امام احمد بن حنبلؒ بھی اس سفر میں میرے ساتھ ہیں۔ امام عبدالرزاقؒ نے امام احمد بن حنبلؒ کے لئے خوب دعائیں کیں۔ ان کی تعریف فرمائی اور ان کے علمی کارناموں کی تحسین کی۔
یحییٰ بن معینؒ کہتے ہیں: میں بہت خوشی کے عالم میں اپنی رہائش گاہ پہنچا۔ امام احمد بن حنبلؒ سے کہا: رب تعالیٰ نے ہمارے لئے آسانی پیدا فرما دی ہے اور زاد راہ بھی بچ گیا ہے۔
فرمانے لگے: وہ کیسے؟ میں نے کہا: امام عبدالرزاق صنعانیؒ بھی مکہ مکرمہ آئے ہوئے ہیں۔ اب یمن جانے کی ضرورت نہیں رہی، ہم مکہ مکرمہ میں ہی ان سے احادیث کی سماعت کر سکتے ہیں۔
امام احمدؒ فرمانے لگے: بغداد میں قیام کے دوران ہی میں نے نیت کر لی تھی کہ صنعاء پہنچ کر امام عبدالرزاقؒ سے احادیث نبویہ کی سماعت کروں گا۔ خدا کی قسم! میں کسی صورت اپنی نیت بدلنے کو تیار نہیں۔
یحییٰ بن معینؒ فرماتے ہیں: جب ہم حج سے فارغ ہوئے تو اپنے پروگرام کے مطابق یمن کے لئے روانہ ہوئے۔ صنعاء میں امام عبدالرزاقؒ کے ہاں پہنچ کر اُن سے حدیث کی سماعت کی۔ اسی دوران امام احمد بن حنبلؒ کے پاس نفقہ ختم ہو گیا۔ امام عبدالرزاقؒ نے انہیں مالی امداد کی پیشکش کی، مگر انہوں نے لینے سے معذرت کر لی۔ انہوں نے یمن میں محنت مزدوری شروع کرلی اور اس سے جو آمدنی ہوئی، اسی سے اپنا گزر بسر کیا۔
محمود بن عمر الزمخشریؒ علم کے حصول کے لئے خوارزم کے علاقے میں سفر کر رہے تھے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں خوب سردی پڑتی ہے۔ راستہ میں موسم خراب تھا، برف باری شروع ہو گئی۔سردی کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ ان کا ایک پائوں جام ہو گیا اور اسے کاٹنا پڑا۔ اس طرح وہ ایک پائوں سے محروم ہو گئے۔ ان کی جان تو بچ گئی، مگر انہیں خوف ہوا کہ لوگ انہیں اس حال میں دیکھیں گے تو کسی کو خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ کہیں شرعی حدود میں تو اس شخص کا پائوں نہیں کاٹا گیا؟! انہوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ ایک ورق تیار کیا۔ اس پر سارا واقعہ لکھا کہ کس طرح ان کا پائوں ضائع ہوا ہے۔ پھر بہت سارے لوگوں سے اس پر تصدیق کروائی کہ وہ اس معاملہ کے گواہ ہیں اور واقعی ان کی ٹانگ سردی کی شدت سے کٹی ہے۔
امام احمد بن حنبلؒ پر فتنۂ خلق قرآن کے حوالے سے آزمائشوں اور مشکلات کے کئی ادوار آئے۔ انہیں کوڑوں سے پٹوایا گیا، جیل میں ڈالا گیا۔ معتصم ان کو منوانے کے لئے ان پر بدترین تشدد کرواتا کہ آپ اس کی مرضی کا فتویٰ دیں۔ امام صاحب پر ظلم وزیادتی کرتے کرتے وہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا، مگر امام حنبلؒ کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ کر سکا۔ امام احمد کے جیل جانے سے عوام میں اضطراب تھا۔ معتصم کے بعد خلیفہ واثق کا دور آتا ہے۔ اس نے امام صاحبؒ کو جیل سے رہا کر کے گھر میں نظر بند کر دیا۔ اس نے حکم جاری کیا کہ آپ درس و تدریس کا کام نہیں کریں گے۔ گھر سے باہر نہیں جائیں گے۔ جمعہ یا5 وقت کی نماز بھی نہیں پڑھا سکیں گے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post