حضرت سہیلؓ بن بیضاء فہری کی کنیت ابو موسیٰ تھی۔ قریش کے خاندان بنو فہر بن مالک میں سے تھے۔ والد کا نام وہب تھا، لیکن وہ اپنی والدہ بیضاء بنت ِ حجدم کی نسبت سے سہیلؓ بن بیضاء مشہور ہوئے۔ حضرت سہیلؓ ان عظیم المرتبت بزرگوں میں سے ہیں، جن کو دعوت ِ حق کے ابتدائی تین برسوں کے اندر قبول ِ ایمان کا شرف حاصل ہوا۔ اس وقت وہ نو عمر تھے۔ بعثت کے چھ سال بعد آغاز (615ئ) میں انہوں نے راہِ حق میں وطن کو خیر باد کہہ کر حبشہ کی غریب الوطنی اختیار کی۔ کئی سال پردیس میں گزارنے کے بعد ہجرت نبوی سے کچھ عرصہ پہلے مکہ کو مراجعت کی اور پھر وہاں سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔
حضرت سہیلؓ کو خدا اور اس کے رسولؐ سے بے پناہ محبت تھی اور وہ ہر وقت راہِ حق میں اپنی جان قربان کرنے پر آمادہ رہتے تھے۔ اس لیے رحمت ِعالمؐ ان کو نہایت عزیز جانتے تھے۔ غزوات کا آغاز ہوا تو انہوں نے بدر سے تبوک تک تمام غزوات میں رحمت ِ دو عالمؐ کی ہم رکابی کا شرف حاصل کیا اور ہر غزوے میں اپنی سرفروشی کے جوہر دکھائے۔
مستدرک ِ حاکم میں ہے کہ سفرِ تبوک میں انہیں یہ عظیم سعادت نصیب ہوئی کہ خود سید المرسلینؐ نے انہیں اپنی سواری پر بٹھا لیا۔ راستے میں حضورؐ نے انہیں دو تین مرتبہ بلند آواز سے پکارا۔ انہوں نے ہر مرتبہ ’’لبیک…‘‘ کہا۔ دوسرے صحابہؓ نے حضور ؐ کی آواز سنی تو وہ بھی آپؐ کے گرد جمع ہوگئے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جس شخص نے خدا کے ایک ہونے کی شہادت دی، خدا اس پر جہنم کی آگ حرام کردے گا اور جنت اس پر واجب ہو جائے گی۔‘‘
تبوک سے واپس آنے کے چند دن بعد حضرت سہیلؓ کو پیغام اجل آگیا اور انہوں نے اپنے آقا و مولاؐ کے سامنے ہی 9ھ میں وفات پائی۔ اولاد کوئی نہ تھی۔ سرورِ عالمؐ نے اپنے محبوب جان نثار کی نمازِ جنازہ مسجد میں پڑھائی، کیونکہ آپؐ اعتکاف میں تھے۔
صحیح مسلم (کتاب الجنائز) میں ہے کہ چند سال بعد حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کا جنازہ مسجد میں لایا گیا تو بعض لوگوں نے اعتراض کیا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا کہ لوگ کس قدر جلد بات بھول جاتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے سہیلؓ بن بیضاء کے جنازے کی نماز مسجد ہی میں پڑھی تھی۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post