اسلام کو فطرت کے مطابق پایا

0

اسلام قبول کرنے کے بعد میرے خاندان کے ہر فرد کا ردعمل مختلف تھا۔ میرے والد کا مجھ سے سلوک بالکل مشفقانہ رہا ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے اپنا لباس بدل لیا اور عام زندگی کو بھی یکسر بدل ڈالا، لیکن میرے باپ کی محبت میں کوئی فرق نہ آیا۔ ایک دفعہ میری پھوپھی آئی تو اس نے مجھے خوب برا بھلا اور قنوطی کہا۔ مزید طعنے بھی دیئے تو میرے والدین نے میری مدافعت کی، تاہم والدہ کا طرز عمل کچھ خوش گوار نہ تھا، وہ میری زندگی کے اس انقلاب سے قطعی نا خوش ہوئی، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض دشواریوں کے باوجود میں اپنے والدین کے ساتھ ہی ہوں اور مجھے ان پریشانیوں سے سابقہ نہیں پڑا، جس کی عموماً توقع کی جاتی ہے۔
امریکہ کے اس ماحول میں جہاں مادیت کا دور دورہ ہے، عیش پرستی اور تفریح پسندی ہی کو زندگی کی معراج خیال کیا جاتا ہے، وہاں اسلام قبول کرنا اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنا بے حد مشکل کام ہے۔ چنانچہ میں نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچا کہ میرے والدین مجھ سے کیا سلوک کریں گے؟ میری تعلیم کا کیا بنے گا؟ میں اپنے قریبی احباب میں کیسے زندہ رہوں گی؟ اس نوعیت کے خدشات نے مجھے سخت پریشان کیے رکھا، مگر طویل اور گہری سوچ بچار کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اسلام قبول کرنے میں یہ عارضی پریشانیاں اور مصیبتیں تو ضرور آئیں گی، لیکن ضمیر مطمئن ہوگا اور انجام بہتر۔ میں نے اس دوران خدا سے بہت دعائیں کیں اور اس سے اعانت و مدد طلب کی تو میری دعائیں خدا نے سن لیں اور حیرت انگیز طور پر مجھے وہ ہمت اور حوصلہ عطا کیا کہ میں اتنا بڑا فیصلہ کرنے پر تیار ہوگئی۔
اگرچہ میں نو عمر ہوں، مگر اپنے اس فیصلے پر مستقل طور پر قائم رہوں گی اور مجھے یقین ہے کہ اس میں کوئی کمزوری نہیں آئے گی، اس لیے کہ میں نے یہ فیصلہ خوب سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ اندازہ کریں کہ جب میں قبول اسلام کے لیے ایک مسجد میں گئی تو وہاں کے خطیب و امام نے مجھ پر ذرہ برابر دبائو نہیں ڈالا، بلکہ یہ کہا کہ پہلے اسلام کے متعلق خوب مطالعہ کیجیے، اگر اس بارے میں کوئی اعتراض ہے تو سوالات کرکے تسلی کرلیجیے، پھر اسلام قبول کیجیے۔ اس کے برعکس جب میں عیسائیت کا مطالعہ کررہی تھی، ایک مرتبہ کیتھولک چرچ میں گئی تو سب نے مجھ پر بہت دبائو ڈالا کہ میں فوری طور پر کیتھولک مذہب قبول کرلوں۔ میں نے بہت سے مذاہب کا مطالعہ کیا ہے، میرے شعور نے سب کو مسترد کردیا۔ میں نے اسلام کو اس لیے مطالعہ کے بعد قبول کیا ہے کہ یہ مذہب ہر لحاظ سے بہتر اور عقل کے عین مطابق ہے۔ میں نے مسلسل دو برس تک اسلامی تعلیمات کو پرکھا اور کئی لوگوں سے اس بارے میں گفتگو کی۔ میرے اسلام قبول کرنے میں جذباتیت کا دخل ہے نہ عجلت پسندی اور نہ کسی دنیاوی مفاد کا، خدا نے چاہا تو میں اس پر عمر بھر قائم رہوں گی۔
اسلام قبول کرکے مجھے سب سے بڑی کامیابی یہ ملی ہے کہ زندگی میں وقار اور ڈسپلن کا چلن پیدا ہوا۔ رب کا احسان ہے کہ اسلام کی تعلیمات نے میری زندگی کے ہر پہلو کو مثبت طور پر تبدیل کردیا ہے۔ ان میں بعض تبدیلیاں واضح اور انقلابی نوعیت کی ہیں۔
میں اپنے بالوں کو ڈھانپتی ہوں جو امریکہ کے عریاں ماحول میں شاید بعض لوگوں کو عجیب لگتا ہے۔ اس ضمن میں میرے وہی احساسات ہیں جو ایک با عمل مسلمان عورت کے ہو سکتے ہیں۔ میں نے اپنا سر ڈھانپ کر دراصل ماحول کی آلودگیوں کے خلاف تحفظ حاصل کیا ہے اور عام عورت نیم برہنگی کی وجہ سے جس خوف و سراسمیگی کی کیفیت میں مبتلا رہتی ہے، اس سے کافی حد تک نجات پائی ہے، پھر میرا سر ڈھاپنا ایک قسم کا اعلان بھی ہے کہ میں ایک مسلمان عورت ہوں۔ سب سے بڑی چیز یہ کہ ہمیں خدا نے جو حکم دیا، اس کی پیروی کر رہی ہوں۔
امریکہ میں جو لوگ اپنا مذہب تبدیل کرتے ہیں، ان کی غالب اکثریت میرے خیال میں اسلام کی آغوش میں چلی آتی ہے۔ انہیں اس امر کا احساس ہوگیا ہے کہ موجودہ مغربی طرز زندگی نہ تو اخلاقی قدروں کی پرورش کرتی ہے اور نہ یہ کسی باوقار اور صاف ستھرے اسلوب حیات کو پروان چڑھاتی ہے، جب کہ اس کے برعکس اسلام کی صورت میں وہ ایسی صداقت سے بہرہ ور ہوتے ہیں، جو انہیں بلند ترین اخلاقی معیارات عطا کرتی ہے، جو حقیقت پسندی پر مبنی اور فطری ہے۔‘‘
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More