تحریک انصاف کا یہ کیسا نیا پاکستان ہے کہ جہاں بجلی، پانی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے باوجود یہ اشیا اور خدمات عوام کی دسترس سے دور ہوتی جارہی ہیں۔ بجلی اور صاف پانی کی کمی کا رونا تو عوام سال بھر روتے رہتے ہیں، جبکہ موسم سرما شروع ہوتے ہی گیس کا بحران بھی شروع ہو جاتا ہے۔ ملک بھر سے گیس کی قلت اور عدم فراہمی کی خبریں آرہی ہیں۔ گیس سپلائی کرنے کے لیے حکومت کی نگرانی میں دو بڑی کمپنیاں قائم ہیں۔ سوئی نادرن گیس کمپنی اور سوئی سدرن گیس کمپنی جو بالترتیب ملک کے شمالی اور جنوبی علاقوں کے صارفین کو گیس فراہم کرتی ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں کئی مرتبہ اضافہ کیا تو یہ دو کمپنیاں کیسے پیچھے رہتیں، چنانچہ گیس کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئیں۔ ہر اضافے کے ساتھ حکومت کا یہ ظالمانہ اعلان بھی سامنے آتا رہا کہ اس سے ملک کے غریب لوگوں کے بجٹ میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس احمقانہ اعلان کی تحریک انصاف کے پڑھے لکھے رہنمائوں سے امید نہیں تھی۔ بالفرض کسی شے کے محدود استعمال پر کوئی ٹیکس نافذ نہ ہو اور اس کی قیمت نہ بڑھے تو کیا حکومت دوسری چیزوں کے نرخ بڑھنے سے روک سکتی ہے؟ موجودہ حکومت نے براہ راست جو نئے ٹیکس لگائے اور پرانے ٹیکسوں میں جو اضافہ کیا، ان کا بالواسطہ عوام پر اثر پڑنا لازمی ہے۔ بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہر شے کی پیداواری لاگت بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔ صنعت کار اور تاجر اس میں اپنا مزید منافع شامل کر کے روزمرہ ضرورت کی تمام چیزوں کو مہنگا کر دیتے ہیں، جنہیں روکنے کی کوئی مثال ملکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ حکومت خود شہریوں پر ظلم ڈھانے پر اتر آئے تو ماتحت اور چھوٹے اداروں کو کون روک سکتا ہے؟ وطن عزیز میں گیس کی فی الواقع قلت ہے یا اسے منافع خور تاجروں، صنعت کاروں، کمپنیوں اور حکومت کا گٹھ جوڑ قرار دیا جائے، فوری طور پر صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف سوئی سدرن گیس کمپنی نے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے تمام سی این جی اسٹیشنز کو گیس کی فراہمی دس جنوری تک کے لیے معطل کر دی ہے۔ کمپنی کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ٹرمینل پر مرمت کے باعث یہ فراہمی معطل کی گئی ہے۔ کمپنی کے بقراطوں سے کوئی پوچھے کہ جب سردیوں میں گیس کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کی ضرورت زیادہ محسوس کی جاتی ہے تو ٹرمینل کی مرمت کا کام اسی موسم میں کرنا کیا ضروری ہے؟ کمپنی کو سال میں کسی اور وقت یہ موقع نہیں ملتا؟ حقیقت میں یہ شہریوں کی بنیادی ضروریات سے بھی لاتعلقی یا انہیں جان بوجھ کر تنگ کرنے کے مترادف ہے۔ حکمرانوں کی فہم و دانش کا اندازہ پیٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وفاقی وزیر غلام سرور خان کے اس بیان سے کیا جا سکتا ہے کہ کم خرچ والے گیس آلات کے استعمال سے توانائی کی بچت ہوگی اور موسم سرما میں گیس کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنائی جا سکے گی۔ انہوں نے عوام کو یہ قیمتی مشورہ مفت دیا ہے کہ وہ گیس کے بے دریغ استعمال سے گریز کریں تاکہ طلب و رسد کا فرق کم ہو سکے۔ وفاقی وزیر اگر ’’عوام‘‘ میں سے ہوتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ ملک کے غریب عوام ہرممکن کوشش کرتے ہیں کہ ان کے گیس کا بل زیادہ نہ بڑھے، اس لیے وہ خود ہی کم خرچ والے گیس کے آلات تلاش کر کے استعمال میں لاتے ہیں۔ توانائی میں بچت کے لیے وفاقی وزیر کو اپنے جیسے مقتدر و متمول طبقات پر نظر ڈال کر انہیں مشورہ دینا چاہئے۔ موصوف نے عوام کو یہ ہدایت بھی کی ہے کہ وہ گیس کے بے دریغ استعمال سے گریز کریں، چہ خوب۔ جنہیں دو وقت کی روٹی پکانے سے محروم کر کے گیس کی سپلائی کم یا بند کر دی گئی ہو، وہ اس کا کیا اور کیسا بے دریغ استعمال کر سکتے ہیں؟ دوسری جانب ملک کے سب سے بڑے شہر اور صنعت و تجارت کے فروغ کے ذریعے قومی محاصل میں سب سے زیادہ حصہ لینے والے شہر کراچی میں بھی گیس کا بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔ جس سے سائٹ ایسوسی کے مطابق صنعتوں کو روزانہ ڈھائی ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ گیس کے پریشر میں زبردست کمی یا بالکل ہی عدم فراہمی کے باعث گھریلو خواتین کو جس عذاب سے گزرنا پڑ رہا ہے، اس کی فکر تحریک انصاف کے رہنمائوں کو کیسے ہو سکتی ہے۔ اس جماعت میں اول تو غریب کارکن خال خال ہی ہوں گے۔ دوم یہ کہ حکومت میں اوسط یا غریب طبقے کا ایک بھی وزیر نظر نہیں آتا تو برگر فیملیز سے تعلق رکھنے والوں کی بلا سے عوام بھوکے مریں یا مہنگائی کے بوجھ تلے آکر ہلاک ہوں۔ سوئی سدرن گیس کمپنی نے سی این جی اسٹیشنز کے لیے گیس بندش کا دورانیہ بارہ گھنٹے بڑھا کر چھتیس گھنٹے کر دیا ہے، جس کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال والے شہریوں کو پریشانیوں اور اضافی کرایوں کا سامنا ہے۔ کراچی کی سائٹ ایسوسی ایشن کے صدر سلیم پاریکھ کا کہنا ہے کہ اگر کمپنی نے اتوار تک گیس کی بلاتعطل فراہمی پر توجہ نہ دی تو صنعت کار پیر سے سائٹ ایریا میں واقع تمام فیکٹریاں بند کر دیں گے اور منگل یکم جنوری کو گورنر ہائوس کے باہر احتجاج کیا جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ میں غربت کے خلاف جلد پروگرام دوں گا، گویا ابھی تو پروگرام دینے پر غور ہورہا ہے۔ پھر یہ پروگرام کیسا ہو گا اور اس کے نتائج عوام تک کب اور کیسے پہنچیں گے؟ عمران خان نے منی لانڈرنگ کے خلاف تاریخی آپریشن کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ سے چیخیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ ان کا اشارہ پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کی طرف سے آپریشن پر شدید ردعمل کی جانب ہے، لیکن ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ سابقہ و حالیہ حکمرانوں کے عیش و عشرت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے نہ آئندہ اس کے آثار نظر آتے ہیں۔ البتہ ساری دنیا یہ تماشا دیکھ رہی ہے کہ نئے اور تبدیل شدہ پاکستان میں مدینہ جیسا فلاحی معاشرہ قائم کرنے کا دعویٰ لے کر برسراقتدار آنے والی تحریک انصاف نے اب گیس کے معاملے میں بھی ملک بھر کے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ ٭