سابق بھارتی وزیر خارجہ اور حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما یشونت سنہا نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیریوں کی تحریک آزادی کو طاقت کا وحشیانہ استعمال کر کے دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے نئی دہلی میں ایک خبر ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ میں مقبوضہ کشمیر کا کئی مرتبہ دورہ کر چکا ہوں، جہاں میری حکومت کی ایک سینئر شخصیت سے بھی ملاقات ہوئی۔ اس کا کہنا تھا کہ ہر حکومت کا کوئی نہ کوئی ریاستی نظریہ پالیسی ہوتی ہے۔ جن میں میکاولی اور چانکیہ کی پالیسیاں بہت مشہور ہیں۔ بھارت کی بھی کشمیر کے حوالے سے ایک پالیسی ہے جس کے مطابق کسی بھی باغی کو ختم کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یشونت سنہا نے حکومتی شخصیت کا نام لئے بغیر یہ باتیں کہیں۔ اپنے کشمیر کے دوروں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ کسی ایک جگہ جا کر بیٹھ نہیں گئے، بلکہ مقبوضہ کشمیر میں ہر جگہ ان کا جانا ہوا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ کشمیریوں کے دلوں میں بھارت کے ساتھ سخت نفرت موجود ہے۔ نیپال کے لوگ بھی بھارت سے نفرت کرتے ہیں، لیکن کشمیریوں کی نفرت ان سے کئی گنا زائد ہے۔ یشونت سنہا نے صاف لفظوں میں اعتراف کیا کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم صرف اور صرف فوج اور پولیس کی مدد سے کشمیر پر قابض ہیں۔ مذکورہ بالا بیان کسی عام بھارتی شہری یا حکومت کے مخالف کسی سیاستدان کا نہیں ہے، بلکہ بھارت کے سابق وزیر خارجہ کا ہے۔ خطے کے حالات، کشمیر کے معاملات اور پاک و بھارت تعلقات کے پس منظر میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ کیونکہ کسی ملک کا وزیر خارجہ بیرونی رابطوں کے حوالے سے کابینہ میں اہم ترین شخصیت کا حامل ہوتا ہے۔ یشونت سنہا بھارت کے اس کلیدی عہدے پر فائز رہ چکے ہیں اور وہ آج بھی ملک کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے وابستہ ہیں۔ لہٰذا ان کا اعترافِ حقیقت مقبوضہ کشمیر میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی کر رہا ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں تیزی کے ساتھ بھارتی فوج اور دیگر فورسز کے ان پر مظالم بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ پاکستان، اقوام متحدہ، او آئی سی اور ہر عالمی فورم سے مایوسی کے بعد کشمیر کے حریت پسند رہنما اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انہیں بھارت کے تسلط سے لڑ کر ہی آزادی حاصل ہو سکتی ہے۔ پاکستان، مسلمانوں اور کشمیریوں کے ہمدرد ممالک اور تنظیموں سمیت ہر ایک یہی رٹ لگاتا چلا آ رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل مذاکرات ہی کے ذریعے ممکن ہے، جبکہ اس معاملے کے دو پہلوئوں کو ہمیشہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ایک، یہ پاکستان اور بھارت کے بجائے کشمیریوں کا مسئلہ ہے۔ دنیا کی کوئی قوم ان پر یہ فیصلہ مسلط نہیں کر سکتی کہ وہ پاکستان میں شامل ہوں یا بھارت میں۔ تمام بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری باشندوں کو اپنی مرضی سے خود یہ طے کرنا ہے کہ وہ دونوں ممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں یا اپنی آزاد و خود مختار ریاست جموں و کشمیر چاہتے ہیں۔
مذاکرات کے حوالے سے مسئلہ کشمیر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ گفت و شنید ہمیشہ دو طرفہ ہوتی ہے۔ جب کوئی فریق مذاکرات پر آمادہ ہی نہ ہو تو کس سے بات کی جائے۔ کشمیریوں کی بھارت سے نفرت ساری دنیا پر آشکار ہے۔ اب بھارت کے کئی رہنما بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگے ہیں۔ انہیں یہ بھی احساس ہو رہا ہے کہ کشمیر پر قبضے کی فضول جدوجہد میں بھارتی فوج اور پولیس کے اہلکار بے گناہ مارے جا رہے ہیں اور ملک کے بجٹ کا بہت بڑا حصہ اس پر خرچ ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے بھارت کی نصف سے زائد آبادی شدید غربت و افلاس میں مبتلا ہونے کے باعث گھروں سے محروم رہ کر فٹ پاتھ پر راتیں گزارنے پر مجبور ہے۔ بھارت کی انتہا پسند جماعتیں اور حکومتیں محض اپنی اسلام و پاکستان دشمنی میں مقبوضہ کشمیر پر فوجی طاقت سے مسلط رہنا چاہتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جنونی ہندو رہنمائوں کی حکمت عملی یہ بھی ہے کہ مسئلہ کشمیر پر کسی پیش رفت کے بغیر ہی پاکستان کے ساتھ تجارتی و ثقافتی تعلقات کو فروغ دے کر دنیا پر یہ ثابت کیا جائے کہ دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ روابط کے باعث مسئلہ کشمیر کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ بدقسمتی سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں کے بعد تحریک انصاف کی موجودہ حکومت بھی بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات کے لئے یکطرفہ طور پر بے چین ہے۔ جبکہ سرحد کی دونوں جانب عوام میں یہ شعور بڑھتا جا رہا ہے کہ ایک بار مسئلہ کشمیر منصفانہ طور پر حل ہو جائے تو پھر دوستی کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کے وسائل دفاعی صلاحیت بڑھانے پر خرچ ہونے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے صرف ہوں گے اور وہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہونے کے قابل ہو سکیں گے۔ سابق بھارتی وزیر خارجہ یشونت سنہا نے حکمرانوں کو غلط پٹی پڑھانے والے بدنام زمانہ دو سیاسی مفکروں میکاولی اور چانکیہ کی مثالیں دے کر بھارتی حکومت کی یہ پالیسی منکشف کر دی ہے کہ وہ ’’باغیوں‘‘ کو قتل کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔ جو چانکیہ کے پیش کردہ اصول سیاست و حکمرانی کے عین مطابق ہے۔ اپنے خلاف کشمیریوں کی شدید نفرت کے باعث انتہا پسند اور جنونی ہندو رہنما انہیں باغی تصور کرتے ہیں، جبکہ بنیادی انسانی حقوق اور کسی بھی عالمی قانون کے تحت کشمیری باشندے بھارت کے شہری نہیں۔ انہوں نے اول روز سے بھارت کے ساتھ اپنی ریاست کا انضمام قبول نہیں کیا ہے، بلکہ اس سے آزادی کی جدوجہد میں لاکھوں جانیں قربان اور عصمتیں پامال کر چکے ہیں۔ یشونت سنہا کے مطابق بھارت نے اپنی کشمیر پالیسی میں ہمیشہ غلطیاں ہی غلطیاں کی ہیں۔ موجودہ حکومت بھی صرف طاقت کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہتی ہے۔ جس سے کشمیریوں کے دلوں میں بھارت سے نفرت میں اضافہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستان کی حکومت اگر بھارت کی بے جا خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش ترک کر کے بھارت کے عوام، دانشوروں اور تمام طبقوں میں کشمیریوں سے پیدا ہونے والی ہمدردی کا بھرپور جائزہ لے کر سفارتی کوششیں مربوط اور تیز کر دے تو مسئلہ کشمیر پر امن طور پر حل ہونے کی امید ہو سکتی ہے۔٭
Prev Post