اتوار کے دن تک تو ماحول ایسا لگ رہا تھا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کا دس سالہ اقتدار ڈول رہا ہے اور تبدیلی کی ہوائیں بحیرئہ عرب کے کناروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے کو ہیں۔ ٹی وی کھولیں تو لگتا تھا کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں جنگ کا آغاز بس ہوا ہی چاہتا ہے، بس سٹی بجنے کی دیر ہے، لیکن پیر کو سپریم کورٹ میں سماعت کے بعد جو ماحول نظر آیا، اس سے بالکل الگ تصویر بنتی نظر آئی، سیاسی جنگ ٹلتی دکھائی دی، سندھ میں تبدیلی کا معاملہ داخل دفتر ہوتا نظر آرہا ہے، مگر جیسے پہلے والی تصویر پوری نہیں تھی، اسی طرح دوسری تصویر بھی ادھوری ہے، دیکھنے والی آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ سندھ میں تبدیلی کے جھکڑ کا چلنا اب ٹھہر گیا، اسی طرح پی پی پی کے دس سالہ اقتدار کا جانا بھی ٹھہر گیا ہے، بس وقت کا انتظار ہے، رخصتی کا بگل نہیں بھی بجا تو رزمیہ شاعری کا آغاز ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر وہ کلپ شیئر ہو رہے ہیں، جن میں کہیں اور نہیں، بھٹو کے مزار پر کھڑے لوگ پی پی پی قیادت کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں، انہیں بھٹوز ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔ جن لوگوں نے ن لیگ کی قیادت کے خلاف جے آئی ٹی بننے، پھر اس پر سماعتیں اور اس کے بعد کے حالات کو غور سے دیکھا ہے، وہ جان سکتے ہیں کہ جی کا جانا ٹھہر گیا، اس میں جی سے مراد پی پی پی کا سندھ میں اقتدار ہے، مگر یہ جانا فطری ہوگا، اس میں وہ ہنگامہ خیزی نہیں ہوگی، جو تحریک انصاف کے لاابالی اور جلد باز رہنما مچانا چاہ رہے تھے، ہر چیز کو فطری طور پر اس کے انجام کی طرف لے جایا جائے گا، جیسا کہ ن لیگ کی قیادت کے معاملے میں ہوا تھا، کہیں کوئی جلدی تھی اور نہ کسی مرحلے پر دبائو قبول کیا گیا، جب نواز شریف اور ان کی صاحبزادی جی ٹی روڈ کو گرما رہے تھے، چیلنج دے رہے تھے، چھپے ہی نہیں کھلے لفظوں میں دھمکیاں دے رہے تھے، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ دبائو ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں گے، اس وقت بھی دوسری طرف سے کوئی عجلت نہیں دکھائی گئی، بلکہ ن لیگ کی قیادت کو دل کے تمام ارمان پورے کرنے کا موقع دیا گیا، انہیں ہر کارڈ کھیلنے کی چھوٹ دی گئی اور پھر رفتہ رفتہ ہر چیز کو سمیٹ دیا گیا اور آج حالت یہ ہے کہ نواز شریف ہی نہیں، بلکہ شہباز شریف بھی گرفتار ہیں، خاندان کے بیشتر افراد اشتہاری ہو چکے ہیں یا تحقیقات کا سامنا کر رہے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ سب کچھ ہونے کے باوجود ن لیگ کا گڑھ سمجھے جانے والے پنجاب سمیت ملک بھر میں ہر چیز معمول پر ہے، حتیٰ کہ ن لیگ اور اس کے رہنما بھی معمول پر ہیں۔
ن لیگ کے برعکس البتہ پی پی پی قیادت کے معاملے میں رفتار تھوڑی تیز ہو سکتی ہے، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پی پی پی قیادت کے خلاف کیس زیادہ سنگین اور شواہد سے بھرا ہوا ہے، جسے پارٹی رہنما بھی نجی طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ اعتزاز احسن جیسے ماہر قانون بھی شاید اسی لئے کیس لڑنے آگے نہیں آئے۔ پی پی پی قیادت کی ساکھ پر بھی بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔ ن لیگ نے جی ٹی روڈ پر اچھی خاصی طاقت دکھائی تھی، پیپلز پارٹی کی قیادت تمام تر کوششوں کے باوجود سندھ میں کسی مؤثر طاقت کا تاثر نہیں دے پائی۔ آصف زرداری جلسے کررہے ہیں، لیکن نہ تو وہ نواز شریف کی طرح مقبول لیڈر ہیں اور نہ ہی ان سے عوام کی جذباتی وابستگی نظر آئی ہے، وہ تو جلسوں کا تاثر بھی نہیں دے پا رہے، ایسا لگتا ہے جیسے تقاریب سے خطاب کررہے ہوں۔ ن لیگ جنگ لڑنے کے لئے سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا سمیت ہر قسم کے سیاسی ہتھیاروں سے لیس تھی، جبکہ پیپلز پارٹی سیاسی طور پر غیر مسلح ہے، پھر آصف زرداری جتنا مرضی دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرلیں، وہ نوازشریف نہیں بن سکتے، بالکل اسی طرح بلاول کا شہباز شریف سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا، جب پنجاب میں اپنی طاقت رکھنے والے شریف برادران طوفان کا مقابلہ نہیں کر پائے، تو پی پی پی کے بارے میں تو یہ سوچا نہیں جاسکتا کہ وہ ٹھہر پائے گی۔ پیپلز پارٹی کو تو 1997ء میں نواز شریف نے بھی کنارے لگا دیا تھا، حالاں کہ ان کے پاس صرف سیاسی طاقت تھی، اس کے باوجود پی پی قیادت ریاستی طاقت کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو انجام گلستان کیا ہوگا، اس کا پتہ لگانے کے لئے زیادہ ذہانت کی ضرورت نہیں۔ پچھلی بار دبئی کا آشیانہ کام آگیا تھا، اس بار تو وہاں جانا بھی ممکن نظر نہیں آرہا۔ سپریم کورٹ کی پیر کی سماعت سے امیدیں لگانا بنتا ہے، لیکن عملی طور پر پی پی پی قیادت کے لئے باہر جانے کے دروازے کھلتے نظر نہیں آتے، محسوس یہی ہوتا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے گا، بات آگے گئی تو بلاول کو بھی پروانہ مل سکتا ہے، لیکن بالفرض آصف زرداری کا نا م بھی ای سی ایل سے حکومت نے نکال دیا تو تب بھی ان کے لئے پچھلی بار کی طرح دبئی میں جا کر بسیرا کرنا مشکل ہوگا، اس وقت ان پر کوئی کیس نہیں تھا، اس لئے دبئی میں ان کا قیام سیاسی طور پر زیادہ نقصان کا سبب نہیں بنا، اب تو دبئی بیٹھنے کی صورت میں یہاں طلبی شروع ہوجائے گی۔
لوگوں کی نظریں زیادہ جعلی اکائونٹس کیس پر مرکوز ہیں، حالاں کہ اتنا ہی خطرناک تیر پی پی پی قیادت پر نااہلی ریفرنس کا بھی چل چکا ہے، بیرونی اثاثے چھپانے کا معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس سماعت کے لئے لگ چکا ہے، نیویارک کے فلیٹ سمیت جن بیرونی اثاثوں کا الزام ہے، ان کی نشاندہی جے آئی ٹی نے بھی کردی ہے، ایسے میں بچائو مشکل نظر آتا ہے، الیکشن کمیشن سے بچ بھی گئے تو معاملہ سپریم کورٹ چلا جائے گا اور وہاں نواز شریف کیس کی نظیر بہت سوں کی سیاسی نظر ہمیشہ کے لئے خراب کرنے کا سبب بن جائے گی۔ اس لئے جیسا کہ ہم نے پہلے کہا ہے کہ جی کا جانا تو ٹھہر گیا ہے، لیکن اس جی نے کب جانا ہے، اس کا فیصلہ پی ٹی آئی کے جلدباز وزرا نے نہیں کرنا۔
اور ہاں جاتے جاتے رضا ربانی کو بھی یاد کرتے جائیں، ان کا نام تو بعض لوگ ایسے لیتے ہیں، جیسے لفظ اصول کے موجد ہی وہ ہوں، حالاں کہ ان کی اصول پرستی پارٹی سے شروع ہو کر پارٹی قیادت پر ختم ہو جاتی ہے، اب بھی ان کی قیادت کے نام ای سی ایل میں آئے ہیں تو انہوں نے سینیٹ میں اپنی حیثیت کا استعمال کرتے ہوئے قائمہ کمیٹی سے ای سی ایل کے بارے میں ترمیمی بل منظور کرالیا ہے، اگرچہ یہ طے ہے کہ اس بل کو پارلیمنٹ سے حکومت منظور نہیں ہونے دے گی، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے، رضا ربانی کی ’’اصول پرستی‘‘ کی حاضری تو قیادت کے پاس لگ گئی ہے ناں۔ اسی طرح پی پی پی قیادت آج کل اپنا وفاقی دور اقتدار بھی بہت یاد دلاتی ہے، حالاں کہ وہ یاد نہ دلائیں تو تب بھی قوم نہیں بھولی، ابھی تو ان کے رینٹل پاور کے طوق قوم کے گلے سے نہیں اترے، رینٹ لینے والے رینٹ لے کر جا چکے ہیں، مگر قوم اب تک ان کمپنیوں کا رینٹ بھر رہی ہے، ترکی کی رینٹل کمپنی نے تو پاکستان کے خلاف 80 کروڑ ڈالر سے زیادہ کا کیس بھی ثالثی میں جیت لیا ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post