ڈاکٹر ضیاألدین خان
[email protected]
اشفاق احمد بتاتے ہیں کہ لاہور کے قریب بابا فضل نور والے کا ڈیرہ تھا۔ وہ ایک پہنچے ہوئے بزرگ تھے۔ دنیاوی لحاظ سے ان پڑھ۔ لیکن دانش مندی اور روحانی علوم کے بادشاہ۔ ایک بار اشفاق احمد اپنے دوستوں کے ہمراہ بابا جی کے ڈیرے پر بیٹھے تھے کہ علاقے کا ایک جاگیردار اپنے ملازموں سمیت آیا۔ اور بابا جی کے سامنے کھڑا ہو کر فخر سے کہنے لگا۔ بابا جی اب میں بالکل نیک ہو گیا۔ سارے برے کام چھوڑ دیئے ہیں۔ نماز بھی پڑھتا ہوں۔ ظلم بھی نہیں کرتا۔ آپ کی دعا سے اچھا ہو گیا ہوں۔ اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ اس کی گردن فخر سے تنی ہوئی تھی۔ بابا جی خاموشی سے سنتے رہے۔ پھر بولے۔ بیٹا نیکی کے اس تکبر سے گناہوں کی تاریکی اچھی۔ عمران خان جب سیاسی مخالفین پر گناہ گاری۔ رشوت۔ لوٹ اور ڈکیتی کے الزام لگاتے ہیں۔ اور ساتھ اپنی معصومیت اور پاکیزگی کے گیت گنگناتے ہیں تو بابا فضل نور والے یاد آتے ہیں۔ گنہگار کون نہیں۔ سب ہیں۔ سوائے ان کے جن کے سر پر نبوت کا تاج ہے۔ لیکن کم گنہگار وہ ہیں۔ جو اللہ پاک سے ڈرتے ہیں اور خود کو گناہ سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن سچا صوفی اور اصیل مرد کبھی اپنی نیکی اور دوسرے کی برائی کا موازنہ نہیں کرتا۔ غرور اور تحقیر کو اوڑھنا بچھونا نہیں بناتا۔ فجر کے لیے صبح اٹھ کر یہ نہیں سوچتا کہ جو سو رہے ہیں۔ وہ گنہگار اور محروم ہیں۔ اس سوچ سے بہتر ہے کہ وہ خود بھی سو جائے۔ داغ نے کیا خوب صورت بات کی ہے۔ کی ترک مے تو مائل پندار ہو گیا۔ میں توبہ کر کے اور گنہگار ہو گیا۔ آج چار ماہ ہونے کو آئے ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کے ساتھی دن میں تین بار ٹی وی پر آتے ہیں اور سیاسی مخالفین کی کردار کشی کرتے ہیں۔ بار بار انہیں ڈاکو۔ لٹیرے۔ گنہگار۔ ظالم۔ مجرم۔ مقہور۔ مردود ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ سیاسی اختلاف کو ذاتی کردار کشی کا ذریعہ بناتے ہیں۔ اپنی نیکی۔ پارسائی۔ سادگی۔ شرافت۔ معصومیت اور اچھائی کے نغمے سناتے ہیں۔ اور سننے والوں سے توقع کرتے ہیں کہ ان پر یقین کر لیں۔ لیکن نیکی کے اس تکبر سے گناہوں کی سیاہی اچھی ہے۔ کم از کم نظر تو آتی ہے۔ سندھ حکومت گرانے کے لیے جس طرح حکمراں جماعت نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اس سے ان کے دعوئوں پر سر ہلانے والوں کو بھی حیرت ہوئی۔ یہ حیرت نہیں تو اور کیا ہے کہ وفاق آپ سے سنبھل نہیں رہا۔ پنجاب آپ سے چل نہیں رہا۔ خیبر پختون آپ سے تھم نہیں رہا۔ بلوچستان پر آپ توجہ نہیں دے رہے۔ پھر بھی سندھ حکومت پر یلغار کی بے تابی ہے۔ حضرت امام حسینؓ کا فرمان تھا کہ آرزوئوں کا کم ہونا دولت مندی کی دلیل ہے۔ حکومت کے ذہنی افلاس کا اندازہ یہی ہے کہ اقتدار بلا شرکت غیرے یا انا ولا غیری کی خواہش نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے۔ بات یہ ہے کہ لوگ ہر چیز سے کھیلتے ہیں۔ مگر ہوس ان سے کھیلتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تحریک انصاف مرکز اور دیگر تین صوبوں میں مثالی حکمرانی کے ایسے معیارات قائم کرتی کہ اگلے الیکشن میں سندھ پکے ہوئے آم کی طرح جھولی میں آ گرتا۔ لیکن انہوں نے تو الٹا پی پی کو مظلوم بنا دیا۔ یہ زرداری کی فتح نہیں۔ عمران کی شکست ہے۔ اور اس کے نتیجے میں زرداری کی گرفتاری کا معاملہ اور دور چلا گیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس بھونڈے تماشے سے مقتدر قوتوں نے خود کو دور رکھا۔ مخالفت کی نہ حمایت۔ خاموشی سے کھیل دیکھتے رہے۔ حکمراں جماعت کا اصرار تھا کہ اسے سندھ میں بھی حکومت چاہئے۔ اس لیے اسے کوشش کرنے دی جائے۔ مقتدر حلقوں کا کہنا تھا کہ آپ کی مرضی، کر کے دیکھ لیں۔ لیکن اس کھیل میں مدد دینے سے ان حلقوں نے خود کو دور رکھا۔ یوں حکمراں جماعت کے بٹیروں کا رنگ اڑنے سے پیشتر ہی زرد ہو گیا۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ عقل کے بچھڑنے کی جگہ لالچ کے چمکنے کی جگہ کے عین نیچے ہے۔ اب تحریک انصاف کو لالچ کے چمکنے کی جگہ تو نظر آرہی تھی۔ عقل کے بچھڑنے کی نہیں۔ سو وہی ہوا جو ہونا تھا۔ تحریک انصاف کے بے صبر چیتوں کو یہ بھی نہیں علم تھا کہ ان سے رابطے کرنے والے کئی پی پی ارکان اسمبلی خود زرداری نے بھیجے تھے۔ تاکہ نمبر گیم پورا کرنے کے لیے انہیں زیادہ بھاگ دوڑ سے باز رکھا جائے۔ یہ ڈارک ہارس زرداری کے بندے تھے۔ اور عین تحریک اعتماد کے دن پی پی سے مل جاتے یا ایوان سے غیر حاضر ہو جاتے۔ پھر بلا سوچے سمجھے تحریک انصاف کے ہر منہ رکھنے والے شخص نے بے تکان بولنا شروع کر دیا۔ مار دیں گے۔ کاٹ دیں گے۔ گرا دیں گے۔ پلٹ دیں گے۔ الٹ دیں گے۔ قبضہ کر لیں گے۔ لشکر کی یلغار جیسے اس سماں سے پی پی نے پورا فائدہ اٹھایا۔ اور اس زباں درازی کو حکمراں جماعت پر پلٹ دیا۔ سچی بات یہ ہے کہ سندھ کے عوام ایسی زبان۔ بیان۔ کلام اور خفقان کے عادی نہ تھے۔ ان کے لیے ہراس پھیلانے والی ایسی سرگرمی تھی۔ جس کا مقصد سندھ کو سیاسی اکھاڑا بنا کر سب کچھ پائوں تلے روندنا تھا۔ گیہوں کے ساتھ گھن۔ اسپغول کے ساتھ بھوسی۔ بد کے ساتھ نیک۔ بدمعاش کے ساتھ شریف اور ظالم کے ساتھ غریب۔ لیکن اقدام سے پہلے حکومت نے دعوئوں کی وہ دھول اڑائی کہ سپریم کورٹ تک گرد کے بادل چھا گئے۔ اور پھر سارے معاملے کو بریک لگ گئے۔ امام غزالیؒ کہتے ہیں کہ انسان کی پریشانی کے دو اسباب ہیں۔ وقت سے پہلے چاہتا ہے اور قسمت سے زیادہ چاہتا ہے۔ ابھی حکومت بنے چھ ماہ نہیں ہوئے کہ حکمراں جماعت کو سندھ حکومت کی طلب ہونے لگی۔ اور اس نے بلا سوچے سمجھے گہرے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ لیکن اس غلط اقدام نے احتساب کے پورے عمل کو داغ لگا دیا ہے۔ احتساب کے نام پر اقتداری غلبے کی اس کوشش نے سچی بات یہ ہے عدالت اور اداروں کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ اگر تو اس سارے عمل کا مقصد یہ تھا کہ ایک جماعت کو سارے ملک پر مسلط کیا جائے۔ تو اس سے بھونڈا اور برا عمل کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ اور اگر اس کا مقصد یہ تھا کہ ملک کو کرپشن سے پاک کیا جائے اور شفاف احتساب کیا جائے۔ تو تحریک انصاف کو اس حرکت پر سزا ضرور ملنی چاہئے۔ احتساب کے عمل سے خود کو منسوب کرنے کے دعوئوں سے کچھ کم نقصان ہوا تھا کہ یہ حرکت بھی احتساب کے نام پر کر دی گئی۔ لگتا ہے حکومت خود نہیں چاہتی کہ یہ احتساب کا عمل آگے بڑھتا رہے۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کے بعد پی ٹی آئی کی باری آ سکتی ہے۔ ہاں اس سارے کھیل سے حکومت کو جو نیا اتحادی ملا ہے یا ملنے والا ہے۔ اس کا نام ہے۔ نواز لیگ۔ جی ہاں۔ پرویز رشید جیسے دبنگ پی ٹی آئی مخالف رہنما کا بیان آچکا ہے کہ حکومت پر برا وقت آیا تو سسٹم کو بچانے کے لیے نواز لیگ تحریک انصاف کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ سیاست کے سینے میں دل ہی نہیں دماغ بھی نہیں ہوتا۔ صرف مفاد ہوتا ہے۔ اسی لیے سسٹم کی مبہم اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اور اسے کھیل بڑھانے یا یو ٹرن لینے کے لیے آڑ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ پرویز رشید نے بھی یہی کیا ہے۔ خدا انہیں خوش رکھے۔ بس ایک قول ان کی نذر کرنے کو دل چاہتا ہے۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف۔ مولانا رومؒ فرماتے ہیں۔ عدل کیا ہے؟ پھولوں کو پانی دینا۔ ظلم کیا ہے؟ کانٹوں کی پرورش کرنا۔ اب فیصلہ وہ خود کر لیں۔ اللہ بس باقی ہوس۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post