پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کو گرانے کی باتیں کرتی ہے تو تحریک انصاف سندھ حکومت کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ کوئی مثبت اور تعمیری کام ایک سے ہو سکتا ہے نہ دوسری کو کرنا ہے۔ حکومتوں کو گرانے اور بچانے کا کھیل انہیں پسند ہے جس میں وہ لگی ہوئی ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ کے قائدین، اہل خانہ اور دیگر ارکان اپنے خلاف احتساب اور مقدمات کو بھگتانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ملک کی یہ تین بڑی جماعتیں حب الوطنی، اخلاص، دیانتداری، اپنی افرادی قوت اور ان کی صلاحیتوں سے فرداً فرداً کام لیں یا اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کریں تو وطن عزیز کی کایا پلٹنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ لیکن جہاں ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو پس پشت ڈال کر عین اقتدار اور مال و مناصب کا حصول ہی اولین ترجیح اور واضح نصب العین قرار پائے، وہاں کسی کار خیر کی توقع رکھنا فضول ہے۔ قوم ستر برسوں سے یہی تماشے دیکھتی چلی آ رہی ہے۔ وعدوں، دعوؤں اور عملی اقدامات میں زمین و آسمان کا فرق دیکھ کر قوم تمام سیاستدانوں سے مایوس ہو چکی ہے۔ اسی لئے اس کی نظریں اصلاح احوال کے لئے ہر مرتبہ فوج اور عدلیہ کی جانب اٹھتی ہیں۔ فوج نے ملک میں قیام امن کے لئے بلا شبہ نمایاں خدمات انجام دی ہیں، لیکن مکمل امن و استحکام کی منزل ہنوز دور نظر آتی ہے۔ دوسری جانب اعلیٰ عدالتوں سے عوام کو جتنی امیدیں وابستہ تھیں، وہ بھی پوری نہیں ہوئیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور ماتحت عدالتیں فیصلے کرنے میں تو آزاد و خود مختار ہیں، لیکن وہ آئین و قانون اور مقننہ کے طے کردہ اصولوں کی روشنی ہی میں مقدمات کی سماعت اور فیصلے کر سکتی ہیں۔ عدالتوں کے پاس فیصلے نافذ کرنے کی اپنی کوئی قوت نہیں۔ چنانچہ استغاثہ کی جانب سے کمزور مقدمات پیش کئے جانے کے علاوہ عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کی ذمے دار انتظامیہ (بدعنوان حکومتیں) نامی گرامی مجرموں کو بھی رعایتیں اور سہولتیں فراہم کرنے میں ذرا نہیں شرماتی۔ حکمران اور سیاستدان اپنی کرپشن، نااہلی اور ناکامی کو چھپانے کیلئے آئے دن اسٹیبلشمنٹ بہ الفاظ دیگر فوج کو موردِ الزام ٹھہرا کر کہتے ہیں کہ اگر وہ جمہوری عمل میں مداخلت نہ کرے اور یہاں فوجی حکومتیں قائم نہ ہوں تو ملک ترقی کے بام عروج پر پہنچ سکتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز میں استحکام اور ترقی اکثر فوجی حکومتوں کے دور ہی میں نظر آئی۔ فوجی ادوار میں کرپشن سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن سیاستدانوں اور ان کی حکومتوں کے دور میں ہونے والی لوٹ کھسوٹ کے مقابلے میں اسے آٹے میں نمک کے برابر بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سیاستدانوں نے جیسی جیسی سازشیں کیں اور پاکستان کو جس بری طرح لوٹا کھسوٹا، یہ اس کا نتیجہ ہے کہ اربوں کھربوں کے قرضوں کے باوجود ملک ترقی کرسکا نہ عوام کو خوشحالی تو کیا معمولی سہولت بھی نہ مل سکی اور وہ آج تک 1947ء ہی میں نظر آتے ہیں۔
لوگوں کو کچھ نہ دینے والے سیاستدانوں کا طنطنہ ملاحظہ ہو۔ پیپلز پارٹی کے نو آموز رہنما بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ اگر میرے والد گرامی آصف علی زرداری اجازت دیں تو ہم پی ٹی آئی کی حکومت کو ایک ہفتے میں گرا سکتے ہیں اور حکمرانوں کو جیل بھی بھیج سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو وفاق میں چھ ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے، جبکہ صوبہ پنجاب میں تو اس سے بھی کم اکثریت ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی یہ چیخیں اس لئے نکل رہی ہیں کہ شریف خاندان کے بعد ان کا اپنا خاندان اور اعزہ و اقارب احتساب، ملک اور قدرت کے قانون کی زد میں آ رہے ہیں اور صرف صوبہ سندھ میں قائم پیپلز پارٹی کی حکومت پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کی حکومت کا ہر روز اور ہر جگہ ڈھنڈورا پیٹنے والے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ ان کے والد ہماری حکومت نہیں گرا سکے تو چھوٹے میاں سبحان اﷲ، وہ ہفتے دس دن میں کیسے وفاقی حکومت گرا سکیں گے؟ ہم سندھ میں گورنر راج نہیں، وزیراعلیٰ کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ فی الوقت نواز شریف، ان کا خاندان اور مسلم لیگ خارج از بحث ہیں، لہٰذا وفاق اورسندھ میں حکمرانی کرنے والی دو جماعتوں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے مذکورہ رہنمائوں کی باتیں یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ انہیں اپنے اصل کام اور فرائض سے زیادہ غرض نہیں، وہ محض ایک دوسرے کو گرانا اپنی خوبی اور کامیابی سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں مروجہ جمہوری نظام کے مطابق کسی جماعت کو قومی اسمبلی میں ایک ووٹ کی بھی اکثریت حاصل ہو تو وہ وفاقی حکومت تشکیل دے سکتی ہے، جبکہ تحریک انصاف کو کسی طور بھی سہی، چھ ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے۔ باپ بیٹے مل کر اسے گرانا چاہیں تب بھی ایسا نہیں کر سکتے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے فواد چوہدری کی دلی خواہش پر یہ کہہ کر پانی پھیر دیا ہے کہ خبردار، اگر کسی نے سندھ میں خلاف ضابطہ گورنر راج لگانے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ اسے اڑانے میں ایک منٹ بھی نہیں لگائے گی۔ فاضل چیف جسٹس نے جس تناظر میں یہ ریمارکس دیئے ہیں، وہ اپنی جگہ سو فیصد درست ہیں، لیکن ان کے انداز بیان سے پیپلز پارٹی اور اس کے نااہل و بدعنوان حکمرانوں اور رہنمائوںمیں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھی تو وفاقی حکومت کو گرانے اور حکمرانوں کو جیل بھیجنے کی بات کی ہے۔ ان کے بارے میں بھی کچھ کہنا مناسب ہوگا۔ آصف علی زرداری کے متعلق تو سب جانتے ہیں کہ وہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، لہٰذا ان کی زبان و بیان پر کب تک اور کہاں تک گرفت کی جائے؟ البتہ اپنے تعلیم یافتہ اور مہذب ہونے کا تاثر دینے والی تحریک انصاف کے وزیر اطلاعات و نشریات اگر یہ لب و لہجہ اختیار کریں کہ گدھ اور گیدڑ سندھ سے چمٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے غریب سندھیوں کا پیسا ’’ چوری ‘‘ کر کے دوبئی اور لندن میں محلات بنانے اور جہاز خریدے تو اسے یقیناً افسوسناک قرار دیا جائے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتوں کو گرانے کی باتیں تکلیف دہ ہیں۔٭
٭٭٭٭٭
Prev Post